قومی فٹبالرز اور آرگنائزر کا کراچی پریس کلب پر احتجاج

قومی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان عیسیٰ خان، گل کاکڑ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فٹ بال کی تباہی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے— فوٹو: اسکرین گریب
قومی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان عیسیٰ خان، گل کاکڑ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فٹ بال کی تباہی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے— فوٹو: اسکرین گریب

قومی فٹبالرز اور آرگنائزر نے کراچی پریس کلب پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر قومی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان عیسیٰ خان، گل کاکڑ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فٹبال کی تباہی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے،2015ء سے پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) کے معاملات مسلسل تنازعات کا شکار چلے آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیفا نے تین سال قبل پاکستانی فٹبال کے معاملات کے حل کیلئے نارملائزیشن کمیٹی بنائی اور انہیں ہزاروں ڈالرز کے مشاہرے بھی دے رہی ہے لیکن کمیٹی فٹبال کے معاملات کو حل کرنے کے بجائے انہیں طوالت دے رہی ہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ آج پورے ملک کے فٹبال لورز نے کراچی میں احتجاج کیا ہے آئندہ اس کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے پورےملک میں احتجاج کریں گے، فیفا اور اے ایف سی ہارون ملک کا احتساب کرے۔

اس موقع پر سابق قومی کپتان و کوچ لالا اکبر رئیسانی، ظفر اقبال، اورنگزیب شاہ میر، ناصر کریم، عبدالرحیم بلوچ، ظفر بلوچ، محمد یوسف خان، فتح محمد بلوچ، آصف خان، محمد خالد تنوئی، ڈاکٹر محمد علی کاکڑ، حالی خلیل احمد سرپرہ،کیپٹن محمد حسین اور دیگر موجود تھے۔

احتجاج کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ہم فٹبال کمیونٹی سندھ اور بلوچستان کی جانب سے بتانا چاہتے ہیں کہ گزشتہ آٹھ سال سے قومی فٹبال معاملات تنازعات کا شکار چلے آرہے ہیں۔ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے جنوری 2021ء میں فٹبال کے معاملات حل کرنے کیلئے نارملائزیشن کمیٹی بنائی جس کی پہلی ترجیح تین ماہ میں پی ایف ایف کے انتخابات کرا کرقومی فٹبال کے معاملات منتخب افراد کے حوالے کرنا ہے لیکن اس سے قبل دو کمیٹیوں نے ڈیڑھ سال برباد کیا اور اب ہارون ملک کی سربراہی میں قائم کمیٹی بھی ڈیڑھ سال سے اپنا کام مکمل کرنے میں ناکام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم فیفا اور اے ایف سی کے ذمہ داروں سے مطالبہ کرتے ہیں موجودہ کمیٹی کو کسی صورت توسیع نہ دیں انہیں فٹبال کے الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان کے مسلسل تاخیری حربوں کی بدولت قومی فٹبال تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

مزید خبریں :