Time 07 جون ، 2023
پاکستان

14مئی کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا: چیف جسٹس

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں اور پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کی  سماعت سپریم کورٹ میں ایک ساتھ ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ  نےکیسز کی سماعت کی، بینچ میں  جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

سماعت کا  آغاز ہوا  تو  چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کچھ درخواستیں  آئی ہیں، ریویو ایکٹ کا معاملہ کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے،  اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، ریویو ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بینچ سنے گا، علی ظفر صاحب آپ بھی ریویو ایکٹ پر اپنا نقطہ نظر بتادیں۔

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ  سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی یہی معاملہ اٹھایا گیا تھا، سپریم کورٹ نے  پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دے  رکھا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا حکم امتناع ریویو ایکٹ پربھی لاگو ہوتاہے،  سپریم کورٹ پنجاب انتخابات  نظرثانی کیس کو سن سکتی ہے، سپریم کورٹ ریویوایکٹ حکم امتناع کی وجہ سے اس عدالت پر ابھی لاگو نہیں ہوتا،عدالت انتخابات نظرثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے، انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل تقریباً ہوچکے، اب کیس مکمل کرلینا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر ریویو ایکٹ لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ  سے دلائل دینا ہوں گے، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے  اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہوچکا ہے؟ بتائیں کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ ہو، الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ  ان کے پاس وسیع  تر اختیارات ہیں، اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، پنجاب انتخابات نظرثانی کیس نیا نہیں، اس پر پہلے  بحث ہوچکی، الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار  بڑھانے پر تھے، انتخابات نظرثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے تو  الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل وہیں سے شروع کرسکتے ہیں۔

عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہےگاکہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں:چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کا معاملہ قومی مسئلہ ہے، 14 مئی کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا، عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہےگا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں، دیکھنا تو یہ تھا کہ کیا انتخابات کے لیے 90 روز بڑھائے جاسکتے ہیں،کیا 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات میں التوا کے لیے درج ہیں؟ ہر چیز  تشدد اور  زور  زبردستی سے نہیں ہوسکتی۔

15 مئی کی رات مجھے لگا کہ آئین کا انتقال ہوگیا:  بیرسٹرعلی ظفر

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ کرنےکی استدعا کرتے ہوئےکہا کہ جو بھی حالات یا دلائل ہوں، عدالت پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ جلد کرے،  15 مئی کی رات مجھے لگا کہ آئین کا انتقال ہوگیا، 15مئی کو انتخابات کی معینہ مدت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہوئی،  ہر دن مجھے محسوس ہوتا ہےکہ آئین کا قتل ہوچکا، وزیراعظم، چیف جسٹس سمیت سب نےآئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل جو بھی دلائل دیں  لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔

 بیرسٹر علی ظفر نےکہا کہ  جب ریویو ایکٹ پاس ہوا توسینیٹ میں کہا کہ کیسے آئین سے متصادم قانون بنا رہےہیں؟ سینیٹ سے 5 منٹ میں یہ ریویو ایکٹ پاس ہوا اور وہاں بحث بھی نہیں ہوئی، آرٹیکل184 تھری میں ترامیم اچھی ضرور ہیں مگر یہ آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے،  عدلیہ کی آزادی سے متعلق قوانین آئینی ترمیم سے ہی بنائے جاسکتے ہیں،

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے خیال میں حکومت نے آرٹیکل184 تھری میں اپیل کا حق دیا جو خلاف آئین ہے؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ  جو نکات مرکزی کیس میں نہیں اٹھائےگئے وہ نظرثانی میں نہیں لائے جاسکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اس قانون میں آرٹیکل 184 تھری سے متعلق اچھی ترامیم ہیں، صرف ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ  آرٹیکل184 تھری پر نظرثانی کو اپیل قرار  دے دیا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں حکومت نے غلطی کی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے خلاف درخواست گزار ذاتی حثیت میں ہیں، اگر علی ظفر کو کیس میں فریق بننا ہے تو درخواست ڈال دیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ وقت کی بچت ہو، اچھی بات یہ ہوئی ہےکہ  حکومت اور حکومتی اداروں نے قانون کے مطابق چلنےکا فیصلہ کیا ہے، آج حکومت کی سوچ ریاضی کی بنیاد پر نہیں قانون اور حقائق پر ہے،  حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو ہم سراہتے ہیں،حکومت تو دروازوں پر احتجاج کر رہی تھی،کیا احتجاج کا مطلب انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا تھا؟ یہ جو انصاف کا کام ہم کررہے ہیں یہ مولا کریم کا کام ہے، ہمارے کام میں دخل دینا تو حق میں مداخلت کرنا ہے۔

سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواست گزار زمان خان وردگ اور دوسرے درخواست گزار غلام محی الدین نے بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اپنالیے۔

عدالت نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔

عدالت کا کہنا ہےکہ سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز  اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواستیں  آئیں، درخواست گزاروں کے مطابق نظرثانی کے دائرہ کار کو بڑھانےکا ایکٹ غیر قانونی ہے، درخواست گزاروں کے مطابق نظرثانی کا دائرہ اختیار  بڑھانے کے لیے  آئینی ترمیم لازم ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر  ایکٹ پر لارجر  بینچ نے پہلے ہی حکم امتناع دے رکھا ہے، دونوں کیسز  ایک ساتھ سماعت کے لیے منگل کو مقرر کیے جائیں۔

عدالت نےسپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس میں اٹارنی جنرل ،فریق مقدمہ صدر ، وفاقی حکومت ، وزارت پارلیمانی امور کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

کیس کی سماعت 13 جون تک ملتوی کردی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے منگل سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں،  پنجاب انتخابات کیس بھی ریویوایکٹ کیس کےساتھ مقرر کیا جائےگا۔

خیال رہے کہ  29  مئی کو  سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز  اینڈ  ججمنٹس  ایکٹ 2023  کے نفاذ  کا  گزٹ  نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

نئے قانون کے تحت 184/3کے تحت فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی، نئے قانون کے مطابق اپیل فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ سنےگا۔

نئے قانون کے تحت نظر ثانی کی درخواست کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہوگا، ماضی میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست وہی بینچ سنتا تھا جس نے وہ فیصلہ دیا ہوتا تھا۔ 

مزید خبریں :