بجٹ: آگے کیا ہو، آنے والے جانیں

کوئی بھی وزیر خزانہ جس کے پاس بجٹ لاگو ہونے پر فقط چھ ہفتے ہوں وہ بلا ٹال کر بھی ایک پژمردہ حکومت کیلئے سیاسی شادمانی کا سامان پیدا کرسکتا ہے۔ ایک بدحال بگڑی معیشت جس کی کوئی کَل سیدھی نہیں کے ساتھ ایک منجھا ہوا معاشی حکمت کار اس سے زیادہ کھیل بھی کیا سکتا ہے؟ 

دو کھرب سے زائد ترقیاتی (950 ارب) اور امدادی رقوم (1100 ارب) آپ کے ہاتھ میں ہوں تو آپ چھ ہفتوں میں سیاسی تہلکہ مچاسکتے ہیں۔ وزیراعظم کے ہاتھ میں درجن بھر وظائف، سہولتوں، قرضوں، مراعات اور دو لاکھ لیپ ٹاپس کے علاوہ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی اسکیمیں ہوں تو بھلا کونسا رنگ ہے جو روزانہ جمایا نہ جاسکے گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30سے 35فیصد اضافے کی شادمانیاں سمیٹے نہیں سمٹیں گی۔

 یہ علیحدہ بات ہے کہ اُجرتی غلاموں کی تگنی مہنگائی میں اجرت میں معمولی اضافے سے انکی تِیرہ راتوں میں روشنی کی کوئی کرن آنے والی نہیں کہ غریب شہر کے تن پہ خستہ لباس بھی باقی نہیں۔ پائیدار معیشت کے انسانی پیمانوں کے حوالے سے سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ 90ارب روپے اراکین اسمبلی میں تقسیم کئے جائیں گے جو سماجی بہبود کے نام پر انتخابی مہم چلائیں گے۔ چالو معیشت کے گُرو اسحاق ڈار کو کیا پروا کہ معاشی پروفیسرز کے نادر خیالات کیا ہیں اور آئی ایم ایف کے کرم خوردہ نسخوں اور ان کے مفتاح اسماعیل ٹائپ حافظوں کی تکرار کیا ہے۔ 

قلیل مدت کے جبر کی ضرورت تھی کہ آئی ایم ایف کی کچھ شرائط مان کر اسکے شکنجوں کو اگلی حکومت کے گلے منڈھ دیا جائے۔ اور اقتدار کے ڈھانچے اور اُمرا کے قبضے کی سیاسی معیشت کو برقرار رکھتے ہوئے وقتی آسودگی کے قلیل وقفے کو انجوائے کیا جائے۔ من گئے آں ڈار صاحب تہاڈی کارستانی دی صفائی نوں۔ پلے نہیں دھیلہ، پھر بھی میلہ میلہ!

حکومت نے نہ صرف بڑے غیر پیداواری خرچے کم نہیں کئے بلکہ ممنوعہ علاقے کے بجٹ میں 16فیصد اضافے کے ساتھ 1804ارب روپے اور ریٹائرڈ محافظین وطن کی 563ارب روپے کی پنشنز کو ملا کر کل 2367ارب کی سلامی پیش کردی ہے۔ محافظ خوش، سیاست باریاب!! یہ علیحدہ بات ہے کہ 14.5کھرب کے اخراجات کو 6کھرب، 924 ارب روپے کے خسارے سے پورا کیا جائے گا۔ صوبوں کا حصہ (5267) دے کر وفاق کے پاس بچیں گے 6887ارب روپے اور قرض وسود 7303 ارب ادا کرنے کے بعد وفاقی حکومت 416 ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہوگی اور پہاڑ جیسے 7,157 ارب روپے کے اخراجات جو اندرونی و بیرونی قرضوں سے پورے کئےجائیں گے جو ظاہر ہے آئندہ حکومت کا درد سر ہوں گے جسے تقریباً 24 ارب ڈالرز 8 ماہ میں دربدر ہوکر مانگنے ہونگے، نہ ملے تو ڈیفالٹ اس کا مقدر ہوگا جسے ڈار صاحب نے ہنرمندی سے ٹال دیا ہے۔ 

اس سال معیشت کی نمو منفی رہی (0.29%)۔ اگلے برس کا ہدف 3.5فیصد ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی 6.1فیصد نمو جس پر اسکے معاشی بالشتیے بہت اتراتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اگلی حکومت کیلئے 13ارب ڈالرز کا کرنٹ خسارہ اور بھاری بھرکم بجٹ یا مالی خسارہ چھوڑ کر گئی تھی۔ جسے اسحاق ڈار درآمدات کو کم کرکے 4ارب ڈالرز پہ لے آئے ہیں، لیکن درآمدات پہ انحصار کرنے والی لارج اسکیل انڈسٹری کی منفی شرح کی قیمت پر۔

شہباز حکومت مفتاح اسماعیل کے مقرر کردہ تمام اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، سوائے کرنٹ اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کے ۔ پاکستانی معیشت عروج (بوم) اور پھٹنے (برسٹ) کے سائیکل کی مظہر ہے۔ جب سپلائی سائیڈ پہ زور ہوتا ہے تو معاشی نمو ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہر دو خسارے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، پھر آئی ایم ایف داخل ہوتا ہے تو ڈیمانڈ مینجمنٹ شروع کی جاتی ہے اور معاشی نمو زمیں بوس ہوجاتی ہے۔ اسی لئے سوائے ایک کے آئی ایم ایف کے تمام پروگرام غیر مکمل رہے۔ حفیظ شیخ نے ڈیمانڈ کنٹرول کی تو معاشی نمو کم ہوگئی، شوکت ترین نے سپلائی سائیڈ بڑھائی تو نمو بڑھ گئی لیکن خسارے آسمانوں پہ پہنچ گئے۔ یہ ایک ایسا بیہودہ چکر ہے جس سے پاکستانی معیشت باہر نکل نہیں پارہی۔

پاکستانی معیشت ابھی پاپانیک کے ہارورڈ اسکول کے معاشی تفریق اور علاقائی نابرابری کے فلسفے پہ گامزن ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں مرکوز کرو باقی آبادی ترقی کی چند بوندوں پہ اکتفا کرے۔ جسے صرف بھٹو صاحب نے توڑا۔ معیشت کا دارومدار اندرونی پیداواری صلاحیتوں پہ کم اور بیرونی قرض و امداد پہ زیادہ ہے جو اب ناقابل ادا ہوچکا ہے۔

 جہاں امرا کا قبضہ ہے، وہیں مفت خور ریاست کا ناقابل برداشت بھاری سپر اسٹرکچر ہے جو ایک دست نگر اور کرایہ خور معیشت کی بودی بنیاد پر کھڑا ہے۔ زور معاشی سلامتی اور عوامی فلاح پہ نہیں، زور حربی سلامتی اور آہنی ڈھانچے پہ ہے جس میں سول سوسائٹی کا دم کب کا گھٹ چکا ہے۔ آبادی کا سونامی آچکا ہے اور غضب کا شکار ،بے کار اور بے ہنر نوجوانوں کا جم غفیر ہے جو سب کچھ تہس نہس کرسکتا ہے جس کا مظاہرہ ہم 9مئی کو دیکھ چکے ہیں، زراعت 4فیصدنکمے زمینداروں کے قبضے میں ہے جنکے قبضے میں 34 فیصد زرعی رقبہ ہے، صنعتکاری درآمدی خام مال اور درمیانی اشیا پہ انحصار کرتی ہے اور سرمایہ دار طبقہ زیادہ تر کرایہ خور ہے۔

 بیورو کریسی لکیر کی فقیر اور ریاست مفت خور۔ اوپر سے غضب یہ کہ اُمرا اور نوکرشاہی پاکستان کی اونرز نہیں، ترک وطن پہ مائل اور سرمایہ ہر لحظہ بیرونی اُڑان میں محو۔ اس پر طرہ یہ کہ زمیندار ٹیکس دیتے ہیں، نہ تاجر اور اسٹیٹ بزنس کے قبضہ گیر۔ اس ہمہ گیر بیمار معیشت کا علاج آئی ایم ایف کے پاس ہے، نہ لبرل اکنامکس کے بس میں۔ اصل مسئلہ سیاسی معیشت اور مفت خور حکمران طبقات سے خلاصی کا ہے، جن سے جان چھڑائے بنا پاکستان اپنی تمام تر صلاحیتوں، ذرائع اور قدرتی دولت سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں دیوالیہ کے علاوہ کیا مقدر ہے۔

 کسی کو فکر ہے کہ اسوقت ڈھائی کروڑ لوگ بیروزگار ہیں اور دس کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ اور مزدور کی تنخواہ میں 36فیصد مہنگائی کے ہوتے ہوئے معمولی اضافہ محض اشک شوئی بھی نہیں۔ بدقسمتی سے تمام حکمران جماعتوں کا میثاق معیشت ، میثاق اُمرا اور مفت خوری ہے۔ بیچ میں سراج الحق جو سود سے پاک معیشت کیلئےمضاربہ کا جھنجھنا بجا رہے ہیں اس سے سرمایہ داری کی صحت پہ کوئی اثر پڑنے والا نہیں۔ تو پھر عوامی میثاق ،سماجی معیشت کون دے گا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔