12 جون ، 2023
فیصلہ ہوا کہ کسی اخبار میں ایک شخص کا نام اور تصویر شائع نہیں ہوگی اور ٹی وی پر بھی اس کا چہرہ نہیں دکھایا جائے گا۔
وطن عزیز کے فیصلہ سازوں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن جانے والے اس شخص کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو 1973ء کا آئین دیا اور جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی بھی تھا۔
بھٹو صاحب کا نام اور تصویر میڈیا سے غائب کرنے کا حکم 1978ء میں پاکستان کے تیسرےفوجی آمر جنرل محمد ضیاء الحق نے دیا تھا۔ یہ صاحب 1976ء میں فوجی جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں ساتویں نمبر پر تھے۔ بھٹو صاحب نے ایک جونیئر جرنیل کو آرمی چیف بنا کر اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔
جنرل ضیاء کے دور میں سنسرشپ کے علاوہ پری سنسر شپ (قبل از اشاعت سنسر شپ) بھی عائد کی گئی۔ پری سنسر شپ کی وجہ ظہیر کاشمیری بنے تھے جنہوں نے روزنامہ مساوات لاہور کے صفحہ اول پر ایک تصویر کے ساتھ کچھ اشعار شائع کرکے اپنے قلم کو بندوق سے زیادہ طاقتور ثابت کرنے کی کوشش کی۔ نویں محرم کی رات انہیں نجانے کیا سوجھی۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق ایک خبر کے نیچے بھٹو صاحب کی تصویر لگائی اور اس کے نیچے حضرت امام حسینؓ اور یزید کے درمیان معرکے سے متعلق کچھ اشعار شائع کردیئے۔
اگلے دن دس محرم تھا اور جنرل ضیاء الحق بھی ماتم پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے اپنے وفاقی سیکرٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مجیب الرحمان کے ذریعے حکم صادر کرایا کہ کسی اخبار میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام اور تصویر شائع نہیں ہوگی۔ چار اخبارات و جرائد کو حکم دیا گیا کہ وہ اشاعت سے قبل اپنا مواد فوجی حکام سے منظور کرائیں گے۔ ان میں مساوات لاہور کے علاوہ روزنامہ تعمیر راولپنڈی، ویکلی ویوپوائنٹ لاہور اور ماہنامہ دھنک لاہور شامل تھے۔ اس زمانے میں حافظ طاہر خلیل صاحب روزنامہ تعمیر کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ ہر رات کو وہ اخبار کی کاپی تیار کرکے پہلے ایک میجر صاحب کےپاس لے کر جاتے۔ میجر صاحب جس خبر اور تصویر کو سنسر کرتے اسے اپنے سامنے کاپی سے نکلواتے اور اس کی جگہ لگائی جانے والی خبر اور تصویر کو بھی کلیئر کرتے۔ جب لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا سنائی تو پیپلز پارٹی کے کچھ کارکنوں نے خود سوزیاں شروع کردیں۔ ایک دن راولپنڈی میں ایسی ہی ایک خود سوزی ہوئی اور روزنامہ تعمیر نے صفحہ اول پر خود سوزی کرنے والے کی تصویر لگائی۔ حافظ طاہر خلیل اپنے اخبار کی کاپی لے کر پری سنسر شپ کے انچارج میجر صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے حکم دیا کہ خود سوزی کرنے والے کی تصویر ہٹا دیں۔ حافظ صاحب کی جیب میں ا یک متبادل انتظام موجود تھا۔ انہوں نے ایک بھارتی شاعر وسیم بریلوی کا ایک قطعہ تیار کرا رکھا تھا۔
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے
میجر صاحب نے یہ قطعہ پڑھا تو فرمایا یہ شاعری تو ہمارے خلاف ہے۔ یہ شائع نہیں ہوگی۔ حافظ صاحب نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر میجر صاحب کی ادبی سمجھ بوجھ کی داد دی اور عرض کیا کہ وسیم بریلوی تو ایک بھارتی شاعر ہے اور بھارت کے حالات پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ جانے اور بھارتی حکومت جانے ہم تو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بھارت خطرے میں ہے۔میجر صاحب ان کی باتوں میں آگئے اور یہ قطعہ شائع کرنے کی اجازت دے دی۔ اگلے دن اخبار مارکیٹ میں آیا تو اعلیٰ فوجی حکام اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔ کچھ عرصے کے بعد بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ حافظ طاہر خلیل نے سوچا کہ یہ اتنی بڑی خبرہے۔ جسے پھانسی ہوگئی اس کی تصویر شائع کرنے کی اجازت تو مل ہی جائے گی۔ پھانسی کی خبر کے ساتھ بھٹو صاحب کی تصویر چسپاں کرکے انہوں نے اخبار کی کاپی میجر صاحب کی خدمت میں پیش کردی۔ میجر صاحب نے کرخت لہجے میں تصویر ہٹانے کا حکم دیا۔ حافظ صاحب نے خاموشی سے تصویر ہٹائی اور جیب سے ایک کتابت شدہ شعر نکالا۔
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال سنائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
شعر پڑھ کر میجرصاحب نے پوچھا یہ کس کا شعر ہے؟ حافظ صاحب نے بتایا اطہر نفیس کا شعر ہے۔ میجر صاحب نے پوچھا اس کی نیشنلٹی کیا ہے؟ حافظ صاحب نے بتایا کہ پاکستانی شاعر ہے۔ میجر صاحب نے غرا کر کہا کہ اس شاعر سے کہو بھٹو کو بھول جائے اسے پھانسی لگا دیاگیا ہے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ شاعر نے یہ شعر بھٹو کی پھانسی سے بہت پہلے کہا تھا ہم نے تو یہ شعر اس لئے پیش کیا ہے کہ آج کل پاکستان ٹیلی ویژن پر اقبال بانو کی آواز میں یہ پوری غزل بار بار نشر ہوتی ہے۔ میجر صاحب نےمیز پر مکا مارا اور کہا کہ آج آپ مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ میجر صاحب آج کل نجانے کہاں ہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا نام اور تصویر پاکستان کی تاریخ میں آج بھی زندہ ہے، اطہر نفیس کی غزل آج بھی مقبول ہے اور حافظ طاہر خلیل آج بھی ماضی کے یہ قصے سنا کر موجودہ حالات میں مماثلت تلاش کر رہے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق اور شہباز شریف کے دورِ حکومت میں بہت فرق ہے۔ ایک فوجی آمر اور ایک منتخب وزیراعظم میں مماثلت تلاش کرنا کافی مشکل ہے لیکن تحریک انصاف کے حامی اس دور کو بھی منی مارشل لاء قرار دیتے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ 9 مئی کو فوجی عمارتوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانا غیر جمہوری ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں جب سویلینز پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف ہم نے آواز اٹھائی تو تحریک انصاف والوں نے ہمیں غیر ملکی ایجنٹ اور غدار قرار دے دیا۔
تحریک انصاف والے اپنے دور حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے باجوہ کو تین سال کی توسیع دی تھی۔ حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے یہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ حامد میر جو اپنے آپ پر پابندیوں کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیتے تھے آج یہ ذمہ داری باجوہ پر ڈال رہے ہیں۔
2021ء میں جب مجھ پر ٹی وی کے ساتھ ساتھ اخبار میں بھی پابندی لگی تو میں نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں واضح طور پر کہا تھا کہ مجھ پر پابندی عمران خان نے نہیں اسٹیبلشمنٹ نے لگائی ہے لیکن عمران خان بری الذمہ نہیں کیونکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں۔ افسوس کہ تحریک انصاف اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے جھوٹ کے ذریعے غلطیوں کو چھپانے کی کوشش میں ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ماضی میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی، ہم نے یہ آواز آج بھی اٹھانی ہے۔ ہمارا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ صحافت کے اس مکتبہ فکر سے ہے جس کے سرخیل منہاج برنا، نثار عثمانی ا ور حسین نقی ہیں۔ نقی صاحب جنرل ایوب خان کے دور میں بھی زیر عتاب رہے، بھٹو دور میں فوجی عدالت سے سزا پائی اور پھر جنرل ضیاء کے دور میں بھی فوجی عدالت سے سزا پائی۔ نقی صاحب کے لیڈر منہاج برنا نے آزادی صحافت کی جدوجہد میں ایک شعر کہا جو آج کل مجھے بہت یاد آتا ہے۔؎
آج مرثیہ لکھیں چوتھے ستون کا
یعنی قلم کی موت ، صحافت کے خون کا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔