مسلم لیگ ن کا سیاسی مستقبل

کیا مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک سیاسی بوجھ ہے؟ایک بار پھرسے ایک سیاست زمین بوس ہونے کواورایک سیاست جنم لینے کو ہے۔ اتحادی حکومت بالخصوص مسلم لیگ ن کا سیاسی مستقبل، دانشور جاوید چوہدری نے سوال کیاتومیرا جواب ’’فاتح فوج مال غنیمت تقسیم نہیں کیا کرتی‘‘۔ 

عمران سے حکومت چھیننے سے لیکر آج تک اتحادی جماعتوں کی سیاسی ساکھ بُری طرح متاثر ہوچُکی ہے۔ اگرچہ 17جماعتوں کی حکومت،Casuality اکلوتی مسلم لیگ ن کیونکر ؟ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتمادپرپیپلزپارٹی،جمعیت علماء اسلام کا سیاسی نقصان تو ’’قابل تلافی‘‘مسلم لیگ ن کا نقصان ناقابل بیان کیوں؟ ویسے تو آنے والے الیکشن میں تمام اتحادی جماعتوں کا دانہ پانی رہے گا مگرمسلم لیگ ن کے سیاسی قد کاٹھ اور مقبولیت کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی۔ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن با عزت سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ضرور کہ عمران کی غیر موجودگی میں ’’سُنجیاں ہوجانڑ گیاں گلیاں تے وچ مرزا یار نے کلا ای پھرنا اے‘‘۔

وزیراعظم نواز شریف کیخلاف جب ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘نے علم بغاوت بلند کیا تو عمران خان بطور مہرہ شریک جُرم بنے۔ یقین کامل، کاریگروں نے عمران سے جلد اُکتا جانا تھا کہ 70 سالہ تاریخ یہی کچھ۔ اگست 2018 میں جب اسٹیبلشمنٹ نے مہرہ کو مسندِاقتدار پر بٹھایا تو ایک ساتھ جینے مرنے کا تاثر عام کیا ۔

بالآخرایسا وقت آیااگست 2021 میں عمران مخالف جماعتوں کی حوصلہ افزائی کیلئےدانستہ خبریں لیک ہوئیں کہ’’تعلقات میں دراڑآ چُکی ہے‘‘۔ ستمبر میںISI چیف کی تعیناتی پر تنازع کھل کر سامنے آیا۔جب جنرل ندیم انجم نے عہدہ سنبھالا تو تنازعات اپنا رنگ جما چُکے تھے۔ یاد کرو وہ وقت، دسمبر 2021ءمیں نوازشریف کی مقبولیت ساتویں آسمان پر دمک رہی تھی جبکہ عمران خان کی مقبولیت ناپید اور غارت تھی۔ اسی اثنا، خبریں عام کہ پس پردہ عمران مخالف سیاسی جماعتیں تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے انگڑائی لے رہی ہیں۔

یعنی تاریخ دہرانے کوکہ اسٹیبلشمنٹ دلجمعی سے خواہشمند اور موثر کہ اُن کی ممکنہ لڑائی مخالف سیاسی جماعتیں ہی لڑیں، جیسے ستر سالہ تاریخ رہی ہے۔اس صورتحال میں دو ممکنات دل دہلا دینے کو تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی سیاسی جماعتیں اپنے گلے ڈالتی ہیں اور عمران خم ٹھونک کراپنے نشانے پر اسٹیبلشمنٹ کولیتا ہے تو لامحالہ نوازشریف کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ مقبول بیانیہ عمران خان کو منتقل ہونا لازم تھا جبکہ غیر مقبول بیانیہ ’’ مہرہ بننا ‘‘سیاسی جماعتوں کے حصے میں آجاتا۔ دوسری فکرعدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرنے کیلئے 18جماعتوں نے ملکراسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے حکومت سازی کرنی تھی۔ یعنی کہ پہلی بار نئی حکومت بنتی تو عمران خان اکلوتے کے پاس اپوزیشن آجانی تھی، اکلوتا کراچی تا چترال اپوزیشن کی SLOT آجانی تھی ۔70 سالہ ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ، بالآخر ہو کر رہا۔

میرایقین کامل، فروری مارچ 2022 تک عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے دھینگا مشتی متوقع تھی۔دسمبر 2021میں عمران مخالف تحریک عدم اعتمادکی تیاریاں نظر آ ئیں تو ہاتھ پاؤں پھولنا بنتا تھا ۔ محترمہ مریم نواز سے دسمبر 2021 میں وقت مانگا، فوری ملاقات پر عرض کی کہ کسی طور تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہ بنیں ۔صراحت کیساتھ بتایاجنرل باجوہ کا اصل ٹارگٹ نگران حکومت قائم کر کے اپنی تعیناتی کو دوام بخشنا ہے۔ 

 مریم نوازصاحبہ قائل کہ’’عمران خان کو گھر نہ بھیجا تووطنی تباہی و بربادی چار سُو رہنی ہے۔ مزید 29 نومبر 2023 کی جادوئی تاریخ، عمران خان نے جنرل فیض حمید کوسپہ سالاربنا دینا ہے ۔ یہ بیانیہ اسٹیبلشمنٹ نے چالاکی کیساتھ عمران مخالف جماعتوں کو بیچا،’’میر کیا سادے ہیں‘‘۔سمجھانے سے قاصرکہ عمران کو نیست و نابو دکرنا اداراتی فیصلہ ہے،نافذ ہو کر رہے گا ۔جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید، کوئی بھی اگلا چیف ، عمران خان کے عتاب سے بچنا ناممکن ہے۔

کلام نرم و نازک بے اثر،مریم نوازصاحبہ بوجوہ ڈٹی نظر آئیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے پھیلائے جال میں پھنس چُکی تھیں۔ شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی، اگرچہ وہ میرے موقف سے متفق ، بتا دیا کہ’’تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہو چُکا ہے۔‘‘ مزیدبتایاکہ’’ حکومت ملتے ہی اصلاحات کے بعدحکومت سے علیحدگی ہو جائے گی‘‘۔جامع باجوہ پلان بھی یہی تھا۔ میرے نزدیک حکومت سے علیحدگی’’ نانی نے خصم کیا اور کر کے چھوڑ دیا‘‘والی بات ہی۔

 اسحاق ڈار کو لندن فون کیاتا کہ میاں نوازشریف تک بات پہنچا پاؤں۔ اسحاق ڈار نے زیادہ مایوس کیاکہ بات سننے پر تیارنہ تھے۔بقول اُنکے’’ وطن عزیزکا عمران کے ہاتھوں برباد ہونااُن کیلئے ناقابل برداشت ہے‘‘۔آج اسحاق ڈار سے کوئی پوچھے کہ پاکستان بچانے کا مزہ آ یا؟ جنوری کے آخری ہفتے فواد حسن فواد کے بیٹے کی شادی پر مسلم لیگ ن کی قیادت کو ایک کونے میں سر جوڑے بیٹھے دیکھا۔ دخل در معقولات کی بدتمیزی کی، خواجہ آصف نے ناک بھوں چڑھائی جبکہ احسن اقبال ، رانا تنویر، ایاز صادق نے پذیرائی کی،بات ضرور سُنی قائل نہ کر سکا۔ ایک ہی رٹ کہ جنرل فیض آ گیا تو ہمارا نام و نشان مٹا دے گا۔ دہرایا کہ جنرل فیض بھی عمران خان کو مثال بنا دے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ سے رجوع کیا کہ تحریک ناکام ہو جائے، تاکہ نواز شریف کی سیاست بچ جائے۔

معلوم نہیں، آج افسوس میں نوازشریف اپنے ہاتھ مل رہے ہیں ؟ اگر ہاں تو، ’’اب پچھتائے کیا ہوت‘‘ ۔ دُکھ! اس عمل میں اکلوتے نوازشریف کی سیاست برباد ہوئی ۔تکلیف ! مسلم لیگ ن کی اُبھرتی تابناک قیاد ت مریم نواز’’بِن کھلے مرجھا نے کو ہیں‘‘۔دوسری طرف عمران کی بیٹھے بٹھائے پانچوں گھی میں ہیں۔ چند لوگوں کی ہوس اقتدار، ذاتی مفادات و مقدمات، نوازشریف کی سیاست تو دفنا چُکے ہیں۔’’پروجیکٹ عمران خان‘‘کی کامیاب لانچنگ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کانیا پروجیکٹ ’’عمران خان مکاؤ‘‘زور وں پر ہے۔کیایہ ممکن ہے ؟ جی ہاں! اگر دانشمندی سے نافذرہا۔ اگرچہ آج تک وطنی تاریخ میں رائے عامہ کو اپنے بیانیہ کے زیر اثر لا کراسٹیبلشمنٹ کیخلاف برانگیختہ کرنے والا کبھی زیرو نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں جبکہ جنرل باجوہ کی اپنے ادارے کیخلاف بچھائی گئی بارودی سُرنگیں عمران کومزید طاقتور بنا چُکی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کا تیقن، عمران کا مکو2ماہ میں ٹھپ دیں گے۔ بدقسمتی کہ شیطانی چُنگل میں وطن کو پھنسانے کااصل ذمہ دار عمران نہیں ہے۔ پاکستان کو برباد کرنے والا، مسلم لیگ ن کی سیاست کا مکو ٹھپنے والا، عمران کو مضبوط بنانیوالااکلوتا کردارجنرل باجوہ ہی تو ہے۔ 29 مئی یوم تکریم شہدا کے دن ڈھٹائی سے جب اسٹیج پر براجمان مملکت کا تمسخر اُڑاتے دیکھا تو رب ذولجلال سے میرا سوال ایک ہی تھا، یا الٰہی ایسے قومی مجرموں کا کڑا حساب کیونکر ممکن ہوگا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔