نیا میثاق معیشت

میثاق معیشت کیلئے اُمرا کی حکمران جماعتیں بہت شور تو مچاتی ہیں، لیکن 2008 میں بحالی (بے کس) جمہوریت کے بعد جتنے بھی وزرائے اعظم بشمول عمران خان اور شہباز شریف آئے تو سبھی جاکے آئی ایم ایف کے آستانے پہ بھیک کے طلبگار ہوئے۔

 عمران خان بھی کشکول لے کر گئے، لیکن اس میں چھید لگا کے فرار ہوئے اور شہباز شریف بھی منت و زاریوں اور سخت شرائط کا بوجھ اٹھا کر نامراد لوٹتے نظر آرہے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کے ایمرجنسی وارڈ میں داخلہ ملتا نظر نہیں آرہا تو کھلبلی ہے کہ ہر طرف مچی ہے۔ بحران سیاسی معیشت کا ہے اور ہر دو خساروں کو پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے نسخے بار بار ناکام ہوتے رہے، لیکن بحران ٹالا جاتا رہا۔ لگتا ہے اب کے مفر نہیں !جب دی میڈی ایٹرز نے جمہوریت و انسانی حقوق کا چارٹر جاری کیا تو ایک متبادل پروگرام کی تشکیل کیلئے ملک بھر کے چوٹی کے ماہرین و معیشت دانوں سے رابطہ کیا اور ان کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔

 انہی میں ایک کمیٹی معاشی میثاق کیلئے تشکیل دی جس میں ڈاکٹر اکمل حسین، ڈاکٹر حفیظ پاشا، ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر راشد امجد، ڈاکٹر بنگالی و دیگر ماہرین شامل تھے۔ گو کہ ابھی اس نئے میثاق معیشت پہ کام جاری ہے۔ اسکا عمومی خاکہ درج ذیل ہے۔

جاری معاشی بحران کی جڑیں تاریخی ہیں۔ پاکستان بننے پر ریاستی سرپرستی میں ایک پالتو سرمایہ دار طبقے کی تشکیل کی گئی جو تجارتی برادریوں کے چند خاندانوں پر مشتمل تھا اور زراعت بڑے جاگیرداروں کی جاگیر رہی۔ پھر ایوب خان کی ’’ترقی کا ماڈل‘‘ آیا جو بیرونی امداد/ قرض کے بل پر اندرونی سماجی و طبقاتی و مالیاتی تقسیم پر مبنی تھا جس کے ذریعہ ایک گماشتہ سرمایہ دار طبقہ پیدا کیا گیا جس سے ریاستی سرپرستی میں سرمائے کا ارتکاز چند ہاتھوں میں اس دلاسے پہ کیا گیا کہ ترقی کے چند قطرے کروڑوں محنت کشوں کے نصیب میں بھی آئیں گے۔

 اس سے نہ صرف طبقاتی خلیج پیدا ہوئی بلکہ علاقائی تفریق و استحصال انتہا کو پہنچا۔ جس سے ایک طرف مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو دوسری جانب 1968کا عوامی ابھار پیدا ہوا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے ترقی کے اس ماڈل کو توڑ ڈالا اور نجی سرمائے پر سے ریاستی سرپرستی کا ہاتھ اُٹھا لیا اور ایک اصلاحاتی ایجنڈے پہ گامزن ہوئے اور ریاستی سرمائے سے ترقی کی راہ اپنائی۔ یہ سلسلہ ضیاء الحق کی فوجی آمریت سے ختم ہوا تو وہی پرانا ماڈل عالمی سرمایہ کی بھیک پر بحال ہوگیا ۔ ایک دست نگر معیشت عالمی سامراجی سرپرستی میں چلتی رہی جب تک کہ ایک کلائنٹ ریاست کی جیو اسٹرٹیجک ضرورت تھی۔ ضرورت ختم ہوئی تو معاوضہ آنا بھی بند ہوگیا۔ 

چین کا دروازہ کھلا بھی تو کچھ دیر کیلئے اور وہ بھی عمران حکومت کے دور میں تقریباً بند کردیا گیا۔ دریں اثنا ایک قومی سلامتی کی ریاست کا بھاری بھرکم بوجھ، سرمایہ دار طبقے کی مفت خوری اور زمینداروں، تاجروں، اسٹیٹ بزنس اور سرکاری اداروں کی مفت خوری بلا روک ٹوک جاری ہے۔ انسانی سلامتی کا بحران اور غربت اور بیروزگاری ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ اس وقت دو کروڑ تیس لاکھ لوگ بشمول 80لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں اور دس کروڑ آبادی خط غربت سے بھی نیچے کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ مہنگائی سے کم اجرت والے محنت کشوں اور فکسڈ انکم گروپس کی حقیقی آمدنی یا قوت خرید تین سے چار گنا کم ہوچلی ہے۔ ان حالات میں نیا میثاق معیشت کیا ہو؟

(1) قرضوں سے نجات:ڈیفالٹ کا اعلان کردیا جائے اور ملٹی لیٹرل قرض ری شیڈول کرانے کی راہ نکالی جائے۔ 38ارب ڈالر کے دو طرفہ قرض ری شیڈول کروائے جائیں اور 11ارب ڈالر سے کمرشل قرضوں کی ادائیگی کیلئے کم شرائط پہ قرضوں کا متبادل تلاش کیا جائے۔ تمام نجی بینک قومیا لئے جائیں جس سے تمام اندرونی قرض اسٹیٹ بینک کے کھاتے میں آجائے گا۔ بیرونی کرنسی کے نجی اکائونٹس اسٹیٹ بینک کی تحویل میں دے کر بانڈز جاری کردئیے جائیں۔ سونے کے ذخائر کے ایک حصہ کو بیچ کر بھی کمرشل قرضے ادا کئے جاسکتے ہیں۔

(2)4000 ارب روپے کی مراعات ومستثنیات ختم کردی جائیں ، زرعی ٹیکس سے 340ارب روپے ، پراپرٹی ٹیکس سے 240ارب روپے، کیپٹل گین ٹیکس سے 150ارب روپے، 120لاکھ روپے کی آمدنی سے اوپر 40فیصد ٹیکس، کرایہ کی آمدنی پہ 200ارب روپے ٹیکس ، تاجروں پہ ود ہولڈنگ ٹیکس اور اگر تمام طرح کے اُمرا پر جائز ٹیکس لگایا جائے تو یہ تقریباً 12,200ارب روپے تک اکٹھا ہوسکتا ہے۔ وفاقی ریونیو کو نئے اقدامات سے 9200ارب سے 11500 ارب تک بڑھایا جاسکتا ہے جو کہ 2300 ارب روپے بنتا ہے۔(3) وفاق کی وہ 35وزارتیں اور ان کے درجنوں ڈویژن بند کردئیے جائیں جو محکمے صوبوں کو منتقل کئےجاچکے ہیں۔ دفاع کے اخراجات میں 20فیصد کٹوتی کی جائے۔ زیادہ سے زیادہ تنخواہ 5لاکھ روپے مقرر کی جائے۔

(4) زرعی اصلاحات کی جائیں اور زمین کی حد 50ایکڑ سے 100 ایکڑ مقرر کی جائے اور زرعی ٹیکس لگایا جائے۔ زراعت کی جدید کاری اور سبز کایا پلٹ کی جائے اور اس کی پیداوار عالمی پیمانے پر بڑھائی جائے۔(5) صنعتی پالیسی تبدیل کی جائے۔ درآمدی اشیا پر مشتمل صنعت اور متبادل درآمدات پالیسی کی جگہ برآمدی پالیسی اپنائی جائے۔ خوراک میں خود کفالت پیدا کی جائے اور درمیانی اشیا اور خام مال کی مقامی پیداوار پر توجہ دی جائے، تمام مالیاتی و صنعتی اجارہ داریاں ختم کی جائیں۔ درمیانے اور چھوٹے درجے کی انٹرپرائزز کی سرپرستی کی جائے۔ برآمدات کو متنوع کیا جائے اور ہائی ویلیو ایکسپورٹس پہ زور دیا جائے۔

(6) کالے دھن کے خاتمے کیلئے 5000 کے نوٹ کو ختم کردیا جائے اور دس لاکھ سے اوپر بانڈز جاری کردئیے جائیں۔ اربوں ڈالرز اور ذخیرہ کئے گئے 50 تولے سے اوپر سونے کو ضبط کر کے سرمایہ کاری بانڈز کا اجرا کیا جاسکتا ہے۔(7) غربت و ناداری کے خاتمے کیلئے امدادی رقم 2000ارب روپے کی جائے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ 10 کروڑ لوگوں تک پہنچایا جائے۔(8) تعلیم و صحت اور انسانی مہارتوں کیلئے بجٹ کا ترقیاتی پروگرام 2000ارب روپے تک بڑھایا جائے۔ ترقیاتی پروگرام کا ہدف انسانی سلامتی، پانی ، بجلی کی تقسیم اور تعلیم و صحت کا فروغ ہو۔(9) سائنس، ٹیکنالوجی، انفارمیشن، کمیونیکیشن ، مصنوعی ذہانت اور سماجیات کی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔

(10) غیر دانستہ خارجہ پالیسی کے ساتھ تمام ہمسایوں سے تجارت و علاقائی تعاون بڑھایا جائے اور CPEC کو پاکستان کے زرعی و صنعتی انقلاب کیلئے بروئے کار لایا جائے۔

یہ ہے خلاصہ نئے معاشی میثاق کا ۔ کیا یہ اُمرا کو قبول ہوگا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔