19 جون ، 2023
ڈیوائڈ اینڈ رول محاورہ نہیں ہے بلکہ ایک جامع سیاسی اور فوجی حکمت عملی ہے۔ زمانہ قدیم سے حکومتوں کو دوام بخشنے کیلئے عوام کو آپس میں لڑایا جاتا رہا ہے۔ بدنام زمانہ یورپی مفکر نکولو میکیاولی نے اپنی کتاب ’’دی آرٹ آف وار‘‘ میں ڈیوائڈ اینڈ رول کو اکثریت کے خلاف اقلیت کی کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔
یہ وہ حکمت عملی ہے جس کے تحت چند ہزار یا چند لاکھ لوگ کروڑوں عوام کو آپس میں تقسیم کرکے ان پر حکومت کرتے ہیں۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو 1857ء کے بعد برطانوی سامراج نے برصغیر پاک و ہند میں استعمال کی۔ ایک طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑایا اور دوسری طرف مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کیلئے فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی گئی۔ جلیانوالہ باغ میں پرامن مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دینے والے بریگیڈئر جنرل ڈائر نے 1921ء میں ’’ریڈرز آف سرحد‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔
جنرل ڈائر نے 1919ء میں جلیا نوالہ باغ امرتسر میں قتل عام سے پہلے 1916ء میں بلوچستان میں اپنی کارروائیوں کا اس کتاب میں ذکر کیا۔ جنرل ڈائر نے بڑے فخر سے لکھا کہ اس نے ناصرف بلوچوں کی تحریک آزادی کو ناکام بنانے کیلئے انہیں قبائلی جنگوں میں الجھایا بلکہ بلوچستان میں شیعہ سنی اختلافات کو بھی ہوا دی۔ میر گل خان نصیر نے اس کتاب کا اردو ترجمہ’’ بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار‘‘کے نام سے کیا اور برصغیر میں برطانوی سامراج کی طرف سے’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کو بے نقاب کردیا، یہی وہ پالیسی تھی جو برطانوی فوج کے ایک افسر کرنل ٹی ای لارنس نے پہلی جنگ عظیم میں عربوں کو ترکوں سے لڑانے کیلئے استعمال کی۔
دوسری جنگ عظیم کےبعد برطانیہ کمزور ہوگیا اور امریکہ نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا۔ 1979ء کے انقلاب ایران کے بعد امریکہ نے سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک کو ایران کیخلاف استعمال کیا۔ ہم شیعہ سنی اختلافات کی مکمل ذمہ داری برطانیہ اور امریکہ پر نہیں ڈال سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ایران اور سعودی عرب کے اختلافات کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور فرقہ واریت کی یہ آگ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں بھی داخل ہوگئی۔ کئی دہائیوں تک یہ آگ مسلم دنیا کو ایک خطے سے دوسرے خطے تک جلاتی رہی اور آخر کار اب ایران اور سعودی عرب میں صلح ہوتی نظر آ رہی ہے۔
17جون کو سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان السعود نے تہران کا دورہ کیا اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی جس کے بعد ایرانی صدر کے دورہ سعودی عرب کے امکانات واضح ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے میں چین نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات درست ہے کہ مارچ 2023ء میں ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے ذریعے ایک دوسرے سے تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ ان دونوں ممالک کو قریب لانے کی کوششوں کا آغاز پاکستان اور عراق نے کیا تھا۔
2016ء میں سعودی حکومت نے ایک شیعہ عالم شیخ نمر کو پھانسی کی سزا دی تو ایران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوگیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے ایران میں اپنا سفارت خانہ بند کردیا۔ ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے 2016ء میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے دونوں ممالک کا دور کیا تھا۔ 2016ء میں نواز شریف کو ایک سازش کے تحت سپریم کورٹ سے نااہل کرایا گیا اور ان کا مشن ادھورا رہ گیا۔
2019ء میں عمران خان نے ان دونوں ممالک کو قریب لانے کیلئے کوششوں کا آغاز کیا لیکن سعودی حکومت نے انکی زیادہ حوصلہ افزائی نہ کی۔ اس دوران عراق کے وزیر اعظم عادل المہدی نے ایران اور سعودی عرب میں بیک چینل کھولا جس میں ایرانی فوج کے ایک اعلیٰ افسر جنرل قاسم سلیمانی اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ 3جنوری 2020ء کو وہ عراقی وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے بغداد پہنچے تو ایک امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے۔ اس واقعے کے بعد چین نے ایران اور سعودی عرب میںثالثی شروع کرائی جسکے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔
ایران اور سعودی عرب کی صلح دنیا بھر کے مسلمانوں کے علاوہ ان غیر مسلموں کیلئے بھی ایک اچھی خبر ہے جو ہر طرف امن دیکھنا چاہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کو یہ دیکھنا چاہئے کہ 1979ء کے بعد ایران و عراق جنگ میں مغرب کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے بہت منافع توکمایا لیکن عراق اور افغانستان میں جنگ کا مغرب کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ لبنان، شام اور یمن میں فرقہ وارانہ لڑائیوں نےجن ہزاروں مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ان کی بڑی اکثریت کا رخ کدھر تھا؟ مسلم ممالک میں خانہ جنگیوں اور فرقہ وارانہ لڑائیوں کے باعث متاثرین کی بڑی اکثریت نے یورپ اور امریکہ میں پناہ لی اور اسی لئے مغربی ممالک اپنے امیگریشن قوانین کو سخت بنا کر اپنے ہی شہریوں کیلئے مشکلات بڑھا رہے ہیں۔
عرض یہ کرنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں صلح کا فائدہ صرف مسلمانوں کو نہیں ہے ان دو ممالک کی صلح سے یمن، شام، لبنان، عراق اور بحرین سمیت دیگر ممالک میں فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہوگی۔ پاکستان اور افغانستان میں فرقہ واریت کم ہوگی۔ پاکستان اور ایران کا ایک دوسرے کے ساتھ 900کلومیٹر لمبا بارڈر ہے۔ پاکستان کو ایک طرف ایران اور افغانستان کی غلط فہمیاں دور کرانے کی ضرورت ہے دوسری طرف ایران اور سعودی عرب کو ترکی کو بھی قریب لانا چاہئے۔ مسلم ممالک میں استحکام سے صرف فرقہ واریت نہیں بلکہ انتہا پسندی بھی کم ہوگی۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کو امن و انصاف سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
اس لئے یورپ اور امریکہ کو ایران اور سعودی عرب میں صلح کا ناصرف خیر مقدم کرنا چاہئے بلکہ اس صلح کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ایران اور سعودی عرب کی قربت سے سینکڑوں سال پرانے شیعہ سنی اختلافات شاید مکمل طور پر تو ختم نہ ہوسکیں لیکن مسلمانوں کو چاہئے کہ اختلافات کی بجائے مشترکات پر توجہ دیں۔ یہ مشترکات واقعہ کربلا میں بھی نظر آتی ہیں۔ کربلا میں صرف حضرت حسین ابن علیؓنہیں بلکہ ان کے بھائی حضرت عثمان ابن علیؓ، حضرت ابوبکر ابن علیؓ اور حضرت عمر ابن علیؓ بھی شہید ہوئے۔
عثمانؓ، ابوبکرؓ اور عمرؓ نے حسینؓ کیلئے جان قربان کر دی تو کیا ہم ان سب کی قربانی کے صدقے اپنے اختلافات ختم نہیں کرسکتے؟ یہ کوئی مشکل نہیں۔ سب مقدس ہستیوں کی عزت کی جائے اور دنیا میں اپنی عزت بڑھائی جائے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرقہ نہیں تھا۔ وہ صرف مسلمان تھے۔ ہمیں کسی فرقے کی مذمت کرنے کی بجائے سب کی عزت کرکے اپنی عزت کرانی چاہئے۔ ہمارے نبی ﷺ نے صلح حدیبیہ کے ذریعے غیر مسلموں سے صلح کرلی تو کیا ہم آپس میں صلح نہیں کرسکتے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔