بلاگ
Time 22 جون ، 2023

تلاش گمشدہ

یہ نئی نہیں بلکہ بہت پرانی کہانی ہے، اس ایک کہانی میں بہت سی کہانیاں ہیں۔جبری گمشدگیوں کی یہ کہانیاں میں آپ کو کئی مرتبہ سنا چکا ہوں۔ کل تک کچھ لوگ ان کہانیوں کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔ 

آج وہ لوگ خود بھی جبری گمشدگی کی کہانی بن چکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہانی اتنی خوفناک بن چکی ہے کہ یہ ایک ریاست کے چند ہزار شہریوں کی گمشدگی کی کہانی نہیں رہی بلکہ ریاست کے آئین کی گمشدگی کی کہانی بنتی جا رہی ہے ۔بہت سال پہلے مجھے فخر الدین جی ابراہیم نے حسن ناصر کی گمشدگی کی کہانی سنائی تھی۔ یہ 1960ء کی بات ہے حسن ناصر کراچی میں نیشنل عوامی پارٹی کے آفس سیکرٹری تھے اور جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف سیاسی تحریک چلانے کی کوشش میں تھے۔

 انہیں گرفتار کر لیا گیا تو فخر الدین جی ابراہیم نے وکیل کے طورپر جیل میں ان سے ملاقات کی اور انکی ضمانت کی کوشش کی۔ اس دوران حکومت کو پتہ چلا کہ حسن ناصر چند سال پہلے ہی بھارت سے ہجرت کرکے آیا ہے تو اسے بھارتی جاسوس قرار دے دیا گیا حالانکہ وہ تحریک پاکستان کے رہنما نواب محسن الملک کے خاندان کا چشم وچراغ تھا۔ حسن ناصر کو کراچی سے لاہور کے شاہی قلعے میں لایا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فخرالدین جی ابراہیم اسے کراچی کی جیلوں میں ڈھونڈتے رہے لیکن نومبر 1960ء کی ایک سرد شام حسن ناصر کو تشدد کے ذریعے شاہی قلعے کی تاریک راہوں میں قتل کر دیا گیا۔قتل کے بعد لاش کو نامعلوم قرار دیکر دفنا دیا گیا حسن ناصر کے وکیل نے شور مچایا کہ کراچی میں گرفتار ہونے والا کیمرج یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ نوجوان کدھر گیا تو ایک دن پولیس نے دعویٰ کیا کہ حسن ناصر کو تفتیش کے لئے لاہور لایا گیا جہاں اس نے خودکشی کرلی۔

 حسن ناصر کی والدہ نے بیٹے کی لاش مانگی تو ایک قبر کھود کر مسخ شدہ لاش ان کے حوالے کر دی گئی۔ حسن ناصر کی والدہ بیگم زہرہ علمدار حسین نے جسد خاکی کو کسی اور کی لاش قرار دے دیا اور خالی ہاتھ واپس لوٹ گئیں۔ ایوب خان کی کابینہ میں منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے قانون دان موجود تھے جو ریاستی تحویل میں ایک پڑھےلکھے نوجوان کی ہلاکت پر خاموش رہے۔ کئی سال کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو 1976ء میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اسد اللہ مینگل کو کراچی سے فوج نے حراست میں لیا۔ 

کئی دن تک اسد اللہ مینگل کا پتہ نہ چلا تو وزیر اعظم نے اپنے آرمی چیف جنرل ٹکا خان سے پوچھا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کا بیٹا کہاں ہے ؟ ٹکا خان نے بتایا کہ وہ تو مارا گیا اور ٹھٹھہ کے آس پاس دفن کر دیا گیا ہے۔ بھٹو نے جیل میں ایک کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ لکھی اور یہ قصہ بیان کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک فوجی حکومت کے ہاتھوں پھانسی پر لٹک گئے۔

قبل ازیں 1956ء اور پھر 1962ء کا آئین جنرل ایوب خان کی ملی بھگت سے لاپتہ کیا گیا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں 1973ء کا آئین لاپتہ کیا گیا ،یہ 1985ءمیںبازیاب ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں اس آئین کو پھر سے لاپتہ کر دیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی کہانی میں ایک نیاموڑ آیا۔ 18اکتوبر 2001ء کو کوئٹہ سے علی اصغر بنگلزئی کو گرفتار کیا گیا گرفتاری کے وقت اس کا بیٹا فاروق 17سال کا تھا آج وہ 40سا کا ہو چکا ہے لیکن اس کا باپ واپس نہیں آیا۔ 

2003ء میں کراچی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان کے تین بچوں سمیت گرفتار کیا گیا ۔ پانچ سال تک وہ لاپتہ رہیں اور 2008ء میں ان کی افغانستان میں گرفتاری ڈالی گئی۔ مسعود جنجوعہ 2005ء میں لاپتہ ہوئے کئی عقوبت خانوں میں ان کے ساتھ وقت گزارنے والوں نے ان کے زندہ ہونے کی تصدیق کی لیکن وہ آج تک لاپتہ ہیں۔ زرینہ مری کو دسمبر 2005ء میں کوہلو کے علاقے کاہان سے حراست میں لیا گیا۔ وہ گورنمنٹ مڈل سکول کاہان میں زرینہ بی بی کے نام سے بطور جونیئر ووکیشنل ٹیچر رجسٹرڈ تھیں۔ 

گرفتاری کے بعد انہیں کراچی کے ایک عقوبت خانے میں لایا گیا جہاں انہوں نے ایک اور قیدی کو بتایا کہ اس کی گود میں ایک بچہ تھا اور اسے چھین لیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے بھائیوں کا پتہ بتائے لیکن اسے اپنے بھائیوں کا ٹھکانہ معلوم نہیں۔زرینہ مری آج تک لاپتہ ہے۔ 28جون 2009ء کو خضدار کے علاقے اور ناچ کے ایک سرکاری ہاسپٹل میں نائٹ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو سیکورٹی فورسز اپنے ساتھ لے گئیں۔ وہ ایک زخمی عسکریت پسند کو تلاش کر رہی تھیں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی آٹھ سالہ بیٹی مہلب اور دس سالہ بیٹی سمی نے اپنے والد کو بہت تلاش کیا ۔ میں ان بہنوں کو 2009ء سے والد کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر فریادیں کرتا دیکھ رہا ہوں۔ایک دفعہ سمی دین بلوچ نے اسلام آباد میں والد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتال کی تو جبری گمشدگیوں کے خلاف قائم حکومتی کمیشن کےسربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نےان سے وعدہ کیا کہ بھوک ہڑتال ختم کر دو تو آپ کا والد واپس آ جائے گا ۔بیٹی نے یہ سن کر بھوک ہڑتال ختم کر دی لیکن اس کا والد آج تک لاپتہ ہے ۔ 

2009ء میں مستونگ سے ایک طالب علم ذاکر مجیدبلوچ کو گرفتار کیا گیا ذاکر کی والدہ کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں سال ہا سال سے سڑکوں پر انصاف مانگ رہی ہے لیکن اسے انصاف نہیں مل رہا۔ 2018ء میں بالا کوٹ سے لاپتہ ہونے والے صحافی مدثر نارو کی کہانی میں کئی دفعہ آپ کو سنا چکا ہوں۔ مدثر نارو نے فیس بک پر 2018ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا تھا وہ اپنی اہلیہ اور چھ ماہ کے بیٹے سچل کےساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا اور لاپتہ ہو گیا۔ جس عمران خان کے دورِ حکومت میں مدثر نارو غائب ہواآج وہ عمران خان بھی اپنی پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور گمشدگیوں پر سراپا احتجاج ہے ۔آج عمران خان اپنی پارٹی کی خواتین کارکنوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مذمت کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کیلئے آواز نہیں اٹھاتے ۔

انہیں صرف اپنی پارٹی کے کارکن مظلوم نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور ذاکر مجید بلوچ کی بوڑھی ماں ان کے لئے اہم نہیں ہیں۔ بہت سال پہلے جب حسن ناصر غائب ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو خاموش رہے ۔اس خاموشی کی انہیں بہت بڑی سزا ملی ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آج بھی جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں کھڑا ہے ان فوجی حکمرانوں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سمیت بے نظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان حکومت میں آئے۔ آج کل شہباز شریف حکومت میں ہیں لیکن جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ان گمشدہ افراد میں عمران ریاض خان کا نام بھی شامل ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کے شہریوں کی گمشدگی کی کہانی نہیں بلکہ آئینِ پاکستان کی گمشدگی کی کہانی بن چکی ہے۔ آئیے پہلے 1973ء کے آئین کو ڈھونڈ لیں آئین مل گیا تو گمشدہ شہری بھی مل جائیں گے اور عمران خان کے ساتھ بھٹو والا سلوک نہیں ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔