Time 22 جون ، 2023
صحت و سائنس

وہ عام عادات جو یادداشت کمزور کر دیتی ہیں

عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت کمزور ہونا غیر معمولی نہیں ہوتا / فائل فوٹو
عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت کمزور ہونا غیر معمولی نہیں ہوتا / فائل فوٹو

یادداشت ایک غیر مستحکم چیز ہے، مثال کے طور پر ہوسکتا ہے کہ آپ کو ایک دہائی قبل پیش آنے والا ایک واقعہ تو یاد ہو مگر یہ بھول گئے ہوں کہ گزشتہ ہفتے کسی رات کو کیا کھانا کھایا تھا۔

یا آپ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھول جاتے ہوں جیسے چابیاں کہیں رکھ کر بھول گئے، ایک میسج پڑھا مگر جواب دینا بھول گئے یا کسی سے ملاقات کا وعدہ کرکے بھول گئے۔

ہر فرد ہی باتیں بھولتا ہے مگر جب ایسا اکثر ہونے لگے تو پھر ضرور ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنی چاہیے۔

امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ایجنگ کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت کمزور ہونا یا بھلکڑ ہونا غیرمعمولی نہیں ہوتا، مگر کچھ عادات اور عناصر سے ہر عمر کے افراد کی یادداشت متاثر ہوسکتی ہے۔

ماہرین نے ان عناصر کی فہرست بھی مرتب کی ہے جو درج ذیل ہے۔

ناکافی نیند

نیند صحت کے لیے متعدد پہلوؤں کے لیے ضروری ہوتی ہے اور ان میں سے ایک پہلو یادداشت بھی ہے۔

ناکافی نیند کے نتیجے میں آپ کی نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت 40 فیصد گھٹ سکتی ہے اور دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوسکتا ہے جو یادوں کو بنانے کا کام کرتا ہے۔

ماہرین کے مطابق نیند سے یادیں منظم ہوتی ہیں، جس سے طویل المعیاد بنیادوں پر یادداشت بہتر ہوتی ہے۔

نیند کی کمی کے نتیجے میں لوگوں کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت اور جسمانی توانائی متاثر ہوتی ہے، توجہ ختم ہونے سے یادوں کو ذہن میں لانا مشکل ہوجاتا ہے اور ہم چیزیں بھولنے لگتے ہیں۔

ملٹی ٹاسکنگ

ایک وقت میں کئی کام کرنا کسی ایک پہلو پر مکمل توجہ مرکوز نہیں کرنے دیتا، جس کے باعث لوگ چیزیں بھولنے لگتے ہیں۔

ماہرین لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی کام پر توجہ مرکوز کریں۔

جسمانی طور پر متحرک نہ رہنا

ورزش مجموعی صحت کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے جس میں یادداشت بھی شامل ہے۔

ورزش سے دماغ کے لیے خون کی روانی بڑھتی ہے اور دماغی خلیات کو تحفظ بھی ملتا ہے، اس کے برعکس زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا ان دماغی حصوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے جو یادداشت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

مخصوص ادویات کا استعمال

کیا آپ نے حال ہی میں نئی ادویات کا استعمال شروع کیا ہے؟ اس سے بھی یادداشت متاثر ہوسکتی ہے۔

ادویات جیسے سکون آور دوائیں، الرجی کی ادویات، بلڈ پریشر اور چند دیگر امراض کی ادویات یادداشت متاثر کرسکتی ہیں جس کی وجہ ان ادویات کی مسکن خصوصیات ہیں۔

تمباکو نوشی

تمباکو نوشی بھی ایسی عادت ہے جو یادداشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

تمباکو نوشی سے دماغی خلیات کو نقصان پہنچتا ہے اور نئے خلیات بننے کا عمل تھم جاتا ہے جس سے لوگ بھلکڑ بننے لگتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق نکوٹین کے باعث دماغ کے سیکھنے اور یادداشت سے جڑے میکنزمز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مخصوص غذاؤں سے دوری

غذا بھی ہمارے دماغ پر اثرات مرتب کرتی ہے، اگر کوئی فرد سبز پتوں والی سبزیاں، مچھلی، بیریز، چائے، کافی اور اخروٹ کو اپنی غذا کا حصہ نہ بنائیں تو اس سے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں ان اشیا کا استعمال عادت بنانا دماغی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

کسی قسم کی دماغی بیماری

انزائٹی اور ڈپریشن دونوں ہی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو ذہن میں دہرانا مشکل بنا دیتے ہیں۔

کسی قسم کا صدمہ بھی یادداشت کو متاثر کرسکتا ہے کیونکہ اعصابی نظام جسم کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس عمل کے دوران لوگ عام باتیں بھولنے لگتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق انزائٹی، تناؤ اور ڈپریشن جیسے مسائل توجہ، چیزیں سیکھنے اور یادداشت پر اثرات مرتب کرتے ہیں اور یادداشت کو ٹھیک رکھنے کے لیے ان ذہنی امراض کی روک تھام ضروری ہے۔

ذہن کو تیز بنانے پر توجہ مرکوز نہ کرنا

یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دماغ کو متحرک کریں۔

ماہرین کے مطابق نئی چیزیں سیکھنے، گیمز کھیلنے، مطالعہ یا دیگر سرگرمیوں سے دماغ ہر عمر میں متحرک رہتا ہے۔

نوٹ: یہ معلومات طبی جریدوں میں شائع مضمون پر مبنی ہے، اس حوالے سے قارئین اپنے معالج سے ضرور مشورہ کرلیں۔