26 جون ، 2023
وہ جھکی جھکی نظروں کے ساتھ میرے خلاف ایک ایسے جرم کا اعتراف کر رہا تھا جس کے بارے میں مجھے کوئی خبر نہیں تھی۔ جب اس نے تیسری مرتبہ کہا کہ مجھے معاف کردیں تو میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا کہ بھائی صاحب میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں آپ مجھ سے بار بار معافی نہ مانگیں۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھے اپنے رویے پر شرمندگی ہونے لگی۔ اب میں معافیاں مانگنے لگا۔
قصہ یہ تھا کہ ایک صحافی دوست کے ذریعے پتہ چلا کہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں کافی دن تک ٹالتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ یہ بھی 9 مئی کے کسی واقعے میں ملوث ہوگا اور گرفتاری سے بچتا پھر رہا ہوگا۔ صحافی دوست نے کہا کہ یہ کوئی عام کارکن نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کے اہم ترین لوگوں میں سے ایک ہے لیکن اب اس کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے اور وہ پاکستان سے جارہا ہے لیکن جانے سے پہلے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
کل شام اسی صحافی دوست کے گھر ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔ مقررہ وقت پر دوست کے گھر پہنچا تو وہاں میرا انتظار کرنے والے صاحب کا چہرہ بڑا شناسا تھا۔ پوچھا آپ کے ساتھ کہاں ملاقات ہوئی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ بنی گالا میں آپ سے سلام دعا ہوچکی ہے۔ یہ صاحب پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل سے وابستہ تھے۔
انہوں نے شرمندگی سے بھرپور لہجے میں رک رک کر بتایا کہ میں نے سوشل میڈیا پر بہت سے جعلی اکائونٹ بنا رکھے تھے، کوئی اکائونٹ خاتون کے نام پر تھا، کسی اکائونٹ پر قرآنی آیات لگا رکھی تھیں اور کسی اکائونٹ پر پاکستان کا پرچم لگا رکھا تھا لیکن ان سب اکائونٹس سے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ بولنا پاکستان کی خدمت ہے۔ پھر ایک دن ہمارے سوشل میڈیا سیل سے وابستہ تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما اور ہماری ایک ساتھی کے درمیان ناجائز تعلقات کا بھانڈا پھوٹ گیا۔
جس عورت کی میں بہنوں کی طرح عزت کرتا تھا اس کا مکروہ چہرہ سامنے آیا تو احساس ہوا کہ میں ایک صحیح مقصد کے لئے غلط لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہوں۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے نہ صرف تحریک انصاف بلکہ پاکستان ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ پاکستان چھوڑنے سے پہلے وہ تین لوگوں سے معافی مانگنا چاہتے تھے ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں نے پوچھاآپ مجھ سے معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر گویا ہوئے کہ 2019ء میں آپ نے روزنامہ جنگ میں ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’میں تمہیں نہیں رلائوں گا‘‘۔ اس کالم میں آپ نے لکھا تھا کہ بہت جلد سیاست کا ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جائے گا اور وہ بہت روئیں گے جو کہتے تھے کہ میں تمہیں بہت رلائوں گا۔ اس کالم کے بعد آپ کے خلاف ایک پوری مہم بنائی گئی۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کو حکم دیا گیا کہ حامد میر کو اتنی گالی دو کہ یہ خان صاحب سے معافی مانگنے پر مجبور ہو جائے۔
ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ وہ روزانہ کسی نہ کسی یوٹیوبر سے میرے خلاف وی لاگ کراتے، فیس بک اور ٹوئٹر پر نئے نئے الزامات لگواتے، ٹرینڈ چلواتے لیکن آپ اپنی دھن میں مگن رہتے لہٰذا ہم غصے میں آ کر آپ پر مزید گھٹیا الزامات لگاتے۔ پھر انہوں نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور مجھے وہ سب دکھایا جو وہ سوشل میڈیا پر میرے خلاف پھیلاتے رہے۔ میرے سمیت تیس صحافی اور اینکر ان کے نشانے پر رہے تھے۔ ان میں کچھ خواتین صحافی بھی شامل تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو ان سب سے معافی نہیں مانگنی چاہیے؟
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ان سب سے باری باری ملنا مشکل ہے لیکن آپ سے معافی اس لئے مانگ رہاہوں کہ آپ ہم سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی نفرت ہم نے آپ سے کی۔ کافی دیر گفتگو کے بعد ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ دو دن بعد میں یہ ملک چھوڑ کر چلا جائوں گا لیکن جاتے جاتے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو 2019ء میں یہ کیسے پتہ چل گیا تھا کہ ہمارا انجام بہت دردناک ہوگا اور دوسروں کو رُلاتے رُلاتے ہم خود رونے لگ جائیں گے؟۔
یہ سوال سن کر میں نے ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ جس کالم کا آپ ذکر کر رہے ہیں یہ کس تاریخ کو شائع ہوا؟ ڈاکٹر صاحب نے لیپ ٹاپ سے چیک کیا اوربتایا کہ آپ کا کالم 21نومبر 2019ء کو شائع ہوا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یاد کریں فروری 2019ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرناکیس کا فیصلہ لکھا تھا۔ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف نہیں تھا بلکہ خفیہ اداروں کی سیاست میں مداخلت، میڈیا پر غیرعلانیہ سنسر شپ، پیمرااور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نااہلی کے خلاف تھا۔ اس فیصلے کے بعد جنرل قمرجاوید باجوہ نے قاضی فائز عیسیٰ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور کچھ صحافیوں کو ان کےخلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔
میں نے باجوہ سے اختلاف کیا اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے کالم لکھ دیا۔ کالم شائع ہوا تو وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ افسوس کہ اس یقین دہانی کے چند دن بعد قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف ریفرنس فائل کردیا گیا۔ مجھ پر واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف تباہی سے دو چار ہونے والی ہے کیونکہ جس جماعت نے انصاف کے ادارے کا فیصلہ تسلیم کرنے کی بجائے فیصلہ لکھنے والے کو تباہ کرنے کی سازش کی اس کا اپنا مقدر تباہی تھی۔
یہ تباہی مجھےدیوار پر لکھی نظر آ رہی تھی لہٰذا میں نے کالم لکھ کر وارننگ دی لیکن میری وارننگ پر مجھےگالیاں دی گئیں۔ میرا جواب سن کر ڈاکٹر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ معانقہ کیا اور ایک دفعہ پھر معافی مانگ کر رخصت ہوگئے۔ گھرواپس آتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کاش فروری 2019ء میں تحریک انصاف کی حکومت فیض آباد دھرناکیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کورد نہ کرتی بلکہ اس فیصلے پر عملدرآمد کراتی تو آج پاکستان کےحالات مختلف ہوتے۔
سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی آئین شکنی کے خلاف جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ بھی 2019ء میں آیا تھا۔ تحریک انصاف نے اس فیصلے کوبھی مسترد کیا۔ یہ فیصلہ لکھنے والے جسٹس وقار سیٹھ نے فوجی عدالتوں کی سزائوں کو معطل کیا تو تحریک انصاف کی حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کے خلاف اپیل کردی۔ میرے جیسے صحافیوں کا قصور صرف یہ تھا کہ ہم عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے رہے اور تحریک انصاف سے گالیاں کھاتے رہے۔
آج تحریک انصاف وہی کہہ رہی ہے جو ہم 2019ء میں کہہ رہے تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پارٹی کی قیادت میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے۔ خاطر جمع رکھیے۔ جو آج تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ آنے والے وقت میں دوسروں کےساتھ بھی ہوگا۔ یہ دوسروں کے لئے گڑھے کھودتے ہیں اور پھر خود ہی ان گڑھوں میں گر جاتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔