واحد حل

عمران خان سمیت سب کو سچ بولنا ہوگا،صلح کرنی ہوگی ،معافی تلافی ہوگی تو پاکستان بچ جائے گا۔ مملکت ِ اسلامیہ پاکستان کے تمام سیاسی، سماجی دانش کدے اِس بات پر متفق کہ وطن عزیز دلدل میں پھنس چُکا ۔ فکر وفاقہ ایک ہی کہ مملکت کو نکالا کیسے جائے؟ بد قسمتی کہ حل کسی بھی STAKE HOLDER کو وارا نہیں کھاتا۔

کالم لکھنے کیلئے موضوع پر سوچ و بچار جاری تھی کہ جناب لیاقت بلوچ صاحب تشریف لے آئے۔دوستی بلکہ نیاز مندی50 سال ٹاپ چُکی ۔ 1972 میں پہلی ملاقات ہوئی تو ضلع میانوالی جمعیت کا نظم و نسق میرے پاس تھاجبکہ لیاقت صاحب بطور ناظم پنجاب دورے پر آئے ۔ باہمی تعلقات نے تب سے آج تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

 میرے قارئین جانتے ہیں کہ پچھلے چند سال سے اور خصوصاً پچھلے ایک سال سے میرے حوصلے پست ہو چُکے ہیں۔ آج جو کچھ کاٹ رہے ہیں، بوائی، آبیاری کئی برسوں پہلے کی تھی ۔ مقتدر طبقہ کے کرتوتوں ہی نے تو وطن عزیز کو آج حالتِ نزع میں پہنچایا ہے۔ حسبِ معمول لیاقت بلوچ صاحب مثبت سوچ کیساتھ کہ مایوسی اُنکے کبھی قریب نہیں بھٹکی، ایمان کی دولت سے مالا مال سوچ، جذبہ اُمید اور حل سب کچھ موجود ، عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔

حامد میر صاحب کے پروگرام میں باوقار، بے باک، حق گو، بااُصول حامد خان نے جہاں 40 منٹ میں ملکی سیاسی تاریخ کوزے میں بند کی وہاں ریشہ دوانیوں کا کماحقہ احاطہ کیا اور مثبت، حوصلہ افزائی کی باتیں بتائیں۔ انحطاط پذیر معاشرے میں قحط الرجال، حامد خان جیسے لوگ نعمتِ خداوندی سے کم نہیں۔ سب سے اچھی بات کہ عمران خان بارے پوری شناسائی آگاہی ،بہت ساری باتوں کو گفتگو کا حصہ نہیں بنایا کہ کوئی فائدہ نہ رہتا۔ عمران خان کے اعتماد سے بھی محروم ہو جاتے ۔

وطنی تاریخ اور ذاتی مشاہدات کا لب لباب، ہمارے مسائل کا نقطہ آغاز 7 جنوری 1951 سے پاکستان آرمی کی باقاعدہ ترتیب و تنظیم سے ہی ہو گیا۔ اگرچہ سیاستدان برضاو رغبت بڑھ چڑھ کر استعمال میں رہے، اصل وارداتوں کےذمہ دار نہیں۔اصل بڑے مجرم بلکہ جدِ امجدجنرل ایوب خان نے ہی خرابی کا پہلا بیج بویا۔ آخری سانس تک قیادت رکھنے میں دلچسپی تھی۔تب سے شروع بگاڑ آج ہر آنے والا سربراہ آخری سانس تک چیف کا عہدہ برقرار رکھنا گویااپنا حق سمجھتا ہے۔

پہلی واردات کا آغازیہیں سے، ستر سال سے نظام کی ترتیب ایک آرمی چیف کی فکرِ تدبر کی مرہون منت رہی۔ ایک آدمی کی فکر اور سوچ کے اُصول پر ملکی نظم و نسق ترتیب پاتا رہا ۔ 1962 کے آئین کے آرٹیکل 2 میں لکھا گیا کہ" فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان عوام کو یہ آئین دے رہا ہے۔" یعنی آئین استحکام ریاست کیلئے نہیں،"استحکامِ ایوب خان" کیلئے بنایا گیا۔ تب سے اب تک" استحکام آرمی چیف" اور" استحکام پاکستان "لازم و ملزوم بنے۔

لا محالہ پہلی واردات کی کوکھ سے دوسری واردات کا جنم لینا ایک فطری عمل تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے لیکر خواجہ ناظم الدین کی معزولی تک ، ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار میں آنا پھر راندہ درگاہ ہونا، بینظیر بھٹو تا نواز شریف تا عمران خان تا شہباز شریف ،قوم دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے ، "27 ستاروں کی کہکشاں" میں سے ( ماسوائے لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین ) ایک "درخشاں ستارہ " جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر مسند پر بیٹھا ہو یا پھر راندہ درگاہ نہ ہوا ہو۔ 

تیسری واردات 27 وزرائے اعظم میں سے ایک بھی ہو جسکی کی عسکری قیادت سے بن پائی ؟ محمد علی بوگرہ سے شہباز شریف تک گو آغاز ہمیشہ مثالی تعلقات سے ہوا انجام ہمیشہ ریاست پر بھاری رہا اقتدار کی کشمکش نے چولیں ہلا ئیں۔برائےتفنن ،جنرل باجوہ نے موجودہ حکومت کو ہٹانے کیلئے مارشل لاء کا بھی سوچا۔ چوتھی واردات،جتنے وزراء اعظم نکالے گئے سب پر کم و بیش الزامات ایک جیسے "کرپٹ ، نااہل، سیکورٹی رسک"ہیں۔

پانچویں واردات: کسی کو مسند MERIT ( ایک آدھ کو چھوڑ کر)پر نہیں ملی۔ترجیح اتنی کہ مٹی کامادھورہے تاکہ جیسے چاہیں مروڑ توڑ لیں۔چھٹی واردات: "قومی سلامتی، وسیع تر قومی مفاد اور استحکام پاکستان"کےپردے پیچھے ہمیشہ دلجمعی کیساتھ عسکری سربراہ کا ذاتی مفاد ، اپنی سلامتی اور اپنے اقتدار کا استحکام یقینی بنانا تھا۔ ساتویں واردات :اقتدار کو دوام دینے کیلئے" آب حیات "کی تلاش بذریعہ دستور اور آئین اورنظام کی دھونس دھاندلی رہی۔مقصد راسخ، سیاسی نظام جائز ناجائز اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ سے باہر نہ ہو نےپائے۔

آٹھویں واردات:سربراہ اپنے لا محدود اختیارات، بے پایاں طاقت کے بل بوتے پراپنے ہی ادارے کو ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتا رہا۔افسوس 70 سال کی محنت شاقہ سے آج ادارے کا مثالی نظم و نسق قصہ پارینہ ، معیاری نظم و نسق کی بحالی کیلئے موجودہ چیف سرگرداںہیں۔ جگہ کی تنگی، چند خطرناک وارداتیں اور بھی ، یار زندہ صحبت باقی۔

تکلیف اتنی کہ روز ِاول سے قومی سیاستدان شریک جرم بھی ،اسٹیبلشمنٹ واردات کیلئے کمر بستہ نظر آئی، سیاستدانوں نے اپنے نظریات ( جو سرے سے موجود نہیں) اصول، اخلاقیات کو بالائے طاق رکھا کہ ممدومعاون بن گئے۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ نے اگلے دن بوگرہ کا حلف اُٹھا لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کیA ٹیم ضیا الحق کے دستر خوان پرآن پہنچی ۔ نواز شریف کے ساتھی2002 میں ق لیگ میں اورعمران خان کی کابینہ، آئے دن معافی کی خواستگارجبکہ نواز شریف کی پارٹی جنرل باجوہ کے اشاروں پر ناچتی رہی۔

حامد خان صاحب نے حامد میر صاحب کیساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی اور 50سال سے کسی نہ کسی صورت میں آئین کا جاری و ساری رہنااور اٹھارویں ترمیم کو LAND MARK قرار دیا ۔لیاقت بلوچ صاحب کی آمد کا مقصد بھی اسی پیرائے میں کہ ایک عملی منصوبہ ، جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ بیش قیمت تجاویز بتا ئیں، آگے بڑھانے کی بات کی۔ دونوں بڑوں کو بین السطور پاکستان کی فکر گھائل کر رہی تھی۔ دونوں کے نزدیک ملک کو دلدل سے نکالنے کیلئےایک ایسے چارٹر پر کام کی ضرورت ہے جس میں عمران خان بھی موجود ہو اور فوجی قیادت بھی اُسکے حقوقِ ملکیت لے۔ اس سے پہلے سیاستدانوں کے ہر ایسے اکٹھ یا گفت و شنید میں حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ غیر موجود رہے ہیں۔ اس دفعہ سب کو ایک دوسرے کو معاف کرنا اوراکٹھے بیٹھنا ہوگا۔

 جسکا جو سیاسی نقصان جسکے ہاتھوں ہوا ہے اسکی معافی مانگنا ہوگی اور تلافی کرنا ہوگی۔ یقین دلاتا ہوں اگر ایسا ہوا پایا تو پاکستان بچ جائے گا۔ شکریہ لیاقت بلوچ صاحب، شکریہ حامد خان صاحب، آپ جیسے اصحاب غورو فکر ہی اس قوم میں اُمید کی کرن ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔