بلاگ
Time 09 جولائی ، 2023

معاشی دیوالیہ سے بچے تو سیاسی دیوالیہ

آئی ایم ایف نے بھی بہت دیر کردی آتے آتے۔ چلئے معاشی دیوالیہ کا خطرہ تو ٹلا بھلے 9ماہ کیلئے ہی سہی! اسحاق ڈار ایک عرصہ سے میثاق معیشت کی دہائی دیتے چلے آئے تھے، انکی خواہش بھی آئی ایم ایف کے ایک وفد نے پی ٹی آئی، پی پی پی اور پی ڈی ایم کی قیادتوں سے ملاقاتیں کر کے اسٹینڈ بائی معاہدے پہ اتفاق رائے سے ایک حد تک پوری کردی ہے۔

 گویا سبھی بڑی جماعتوں نے آئی ایم ایف کے نیو لبرل ایجنڈے اور آزاد منڈی کی مارا ماری پر بیعت کرلی ہے۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی نے پیش کردہ بجٹ سے ہٹ کر عالمی مالیاتی ادارے کی ڈکٹیشن کو من و عن بلا جانچے آمنا و صدقنا کہہ کر پاس کردیا تھا اور یوں اپنی خود مختاری کو بھی آئی ایم ایف کے پاس رہن رکھ دیا۔ سنا ہے کہ 9ماہ کے عبوری عرصہ کیلئے بھی عالمی ادارے کو سیاسی استحکام کی یقین دہانیاں چاہئیں۔ شاید آٹھ ہفتوں کی حکومت اور اس میں شامل جماعتوں کو اچھے چلن کی ضمانت دینی پڑے اور تحریک انصاف بھی اپنی پھوٹی قسمت پہ کسی اشک شوئی کی متمنی ہو۔ جب بھی سیاستدان مکالمہ کرلیتے تھے تو بڑے معرکے اور اہداف حاصل کرلیا کرتے تھے۔

 جیسے 1973 کا آئین پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے سہ فریقی معاہدے کی دین تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے مابین میثاق جمہوریت نے جمہوریت کی بحالی کی راہ نکالی اور ایک پندرہ سالہ جیسے کیسے جمہوری عمل کو جاری رکھنے کی سبیل پیدا کی۔ اس دوران جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور سیاستدانوں کو باری باری خوار کرنے کی بہت کوششیں ہوئیں اور حکومتیں بنتی، بدلتی رہیں، لیکن گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی پٹڑی پہ ہی رہی۔ گوکہ گزشتہ تینوں اور خاص طور پر آخری عام انتخابات کا چلن مشکوک رہا اور تین وزرائے اعظم کو قبل از وقت اپنی حکومتوں سے جانا پڑا پھر بھی گاڑی چلتی رہی۔

 اس اثنا میں جو دو بڑے فیکٹرز جمہوریت کے سفر کو خراب کرتے رہے، ان میں سیاستدانوں کی باہم ناچاقیاں اور مقتدرہ کی چالبازیاں سیاسی شکست و ریخت کی باعث بنی رہیں، لیکن پارلیمانی تسلسل برقرار رہا۔ نواز لیگ کو نواز شریف کی غیر منصفانہ تاحیات نااہلی اور بعدازاں عمران حکومت میں دونوں بڑی جماعتوں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی پہ زمین تنگ تو کی گئی، لیکن وہ زخم خوردہ ہوکر بھی میدان میں رہیں۔ لیکن اب صورت مختلف اور مخدوش تر ہوتی چلی جارہی ہے۔

 اس میں عمران حکومت کی عدم برداشت اور سیاسی انتقام اور حکومت سے نکلنے پر عمران خان کی نراجی سیاست اور مہم جوئی نے پورے سیاسی نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ حکومت سے نکلنے پر عمران خان نے نہ صرف قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر اور اپنی دو صوبائی حکومتوں کو تڑوا کر جو سیاسی بحران پیدا کیا تھا، اس سے سیاسی نظام سنبھل تو گیا لیکن انتخابات کے سوال پر دو طرفہ مذاکرات انتخابات کی تاریخ پہ فروعی اختلاف کی ہٹ دھرمی کی نذر ہوگئے۔ سیاسی مکالمہ ناکام ہوگیا۔ سیاسی شہادت کے جوش میں 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ تحریک انصاف کے گلے پڑگیا ۔ فوج کی پھر سے اشیر باد حاصل کرنے کی کوششوں میں ناکامی سے مایوس ہوکر فوج سے ٹکر لے لی گئی۔ جس کا تحریک انصاف خمیازہ بھگتنے جا رہی ہے۔

 اگر انتخابات پر دو طرفہ بات چیت کو کامیاب ہونے دیا جاتا تو سیاسی گرد و غبار چھٹ جاتا اور پارٹیاں انتخابی عمل میں کود چکی ہوتیں۔ فوج بھی سیاست سے کنارہ کشی کرتی دکھائی دی لیکن بلاوجہ کی اشتعال انگیزی سے کنارہ کش ہوتے شیر کو بھڑکا دیا گیا ہے۔ 9 مئی کی مہم جوئی فوج کو پھر سیاست میں گھسیٹ لائی۔ جس سے مکالمے کی بار بار درخواست کی جارہی تھی، اسے ہی فریق بنادیا گیا۔ ایک لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ امن وامان اور جزا سزا تک ہی محدود رہتا تو مناسب رہتا۔ کوئی بھڑکائے اور اشتعال دلائے تو ادارے اپنے پیشہ ورانہ ضبط سے بہک نہیں جاتے۔ جس تحمل کا مظاہرہ 9 مئی کو کیا گیا تھا، اسے برقرار رکھنے سے صورتحال گمبھیر ہونے سے بچ سکتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان اپنی ہی بنائی ہوئی گیم میں پھنس گئے ہیں اور اس سے نکلنے کی کو ئی راہ اُنہیں سجھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں سیاسی دیوالیہ پٹنے سے کون بچاسکتا ہے؟

موجودہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں آٹھ ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ نئی مردم شماری مسلسل لیٹ کی جارہی ہے، اس کا اعلان نہ ہوا اور اس کے مطابق نئی حلقہ بندیاں نہ ہوئیں تو پھر انتخابات وقت پر نہ ہوسکیں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اگلے انتخابات کے شیڈول بارے کوئی خبر نہیں۔ اور جانے چیف جسٹس اپنی آخر سہ ماہی میں کیا ہلچل مچادیں۔ آزادانہ انتخابات کی جانب بڑھنے میں جہاں کسی سیاسی سمجھوتے کا کوئی امکان نہیں، وہیں عمران خان اور تحریک انصاف پر بڑا سوالیہ نشان چسپاں کردیا گیا ہے۔ فائنل کریک ڈائون کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ 

بہتر ہوگا کہ آئین و قانون انصاف کے دائروں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ شہری و انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور آئندہ انتخابات سے کسی بھی لیڈر اور پارٹی کو زبردستی باہر کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اگلے انتخابات بھی مشکوک ہوجائیں گے اور سیاسی بحران سنگین تر ہوتا چلا جائے گا۔ ملک کے سیاسی بحران کا واحد حل صاف و شفاف انتخابات ہیں جس میں سوائے دہشت گرد تنظیموں کے سبھی کو مساوی شرکت کا پورا پورا موقع ملنا چاہئے۔ اس دوران اگر کچھ سیاسی کارکنوں پہ مقدمات چلتے ہیں تو ان میں انصاف بھی ہو اور انصاف ہوتا بھی نظر آئے۔ گوکہ موجودہ سیاسی محاذ آرائی میں فوج کو گھسیٹا گیا ہے، لیکن فوج کا آئینی فرض ہے کہ وہ اپنے سیاست سے دوری کے عہد پہ قائم رہے۔

 فوج کو ہر طرح کی سیاسی کنٹرو ورسی سے دور رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ فوجی عدالتیں سویلینز کا ٹرائل نہ کریں۔ اس پر عالمی طور پر بھی شور مچے گا اور سول سوسائٹی بھی اسے قبول نہیں کرے گی۔ سیاستدانوں کی باہم مارا ماری کے باعث شہباز حکومت بہت تیزی سے سویلین میدان چھوڑ رہی ہے اور اہم ترین معاشی شعبوں کا کنٹرول غیر پیشہ ورانہ ہاتھوں میں دئیے چلی جارہی ہے۔ لیکن فوج حربی کے علاوہ دیگر سویلین اور معاشی شعبوں میں پائوں پھیلانے سے اجتناب کرے۔

 لگتا ہے کہ سیاسی بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ سیاستدانوں کو مخالفین کو سیاسی میدان سے نکالنے کی غیر جمہوری روش سے اجتناب کرنا چاہئے۔ لیکن سیاسی ماحول اتنا تلخ تر ہوگیا ہے کہ مکالمے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ آخر ملک کتنا سیاسی بحران کو برداشت کرپائے گا۔ ایک ہائبرڈ نظام بحران کا شکار ہوکر ختم ہوا، دوسرے کے تجربے کا نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔ کہیں وہ نہ پھر ہوجائے جو ہوتا رہا ہے۔ بیچاری جمہوریہ کی خیر منائیں!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔