بلاگ
Time 10 جولائی ، 2023

کپڑے بچانے ہیں

یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔ یہ کہانی کئی دہائیوں سے دہرائی جا رہی ہے۔ اس کہانی کے کردار اور ان کا انجام کچھ مختلف ہوتا ہے لیکن کہانی کا سبق یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہو یا مارشل لا لیکن یہ طے ہے کہ صحافت ایک بہت خطرناک پیشہ ہے۔ 

یہ سبق بار بار یاد کرانے کیلئے صحافیوں کو بار بار جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا جاتاہے، اغوا کرلیا جاتا ہے یا پھر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پابندیاں لگا کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا جاتا ہے کہ خاموش رہو ورنہ ملکی مفاد خطرے میں پڑ جا ئے گا۔

 اتوار کو چھٹی کے دن روزنامہ جنگ کراچی کے رپورٹر محمد عسکری کو وردی والوں اور بغیر وردی والوں نے مشترکہ کارروائی میں قیوم آباد کے علاقےسے گرفتار کرلیا۔ روزنامہ جنگ سمیت دیگر اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز سے وابستہ صحافی آئے دن اسی انداز میں غائب کردیئے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی محمد عسکری زندہ سلامت واپس آ جاتا ہے لیکن کبھی کوئی حیات اللہ خان یا موسیٰ خان خیل زندہ واپس نہیں آتا۔ 

اس قسم کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اور احتجاج کرتے ہوئے زمانہ بیت گیا لیکن پاکستان کے ارباب اختیار نے نہ بدلنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ آج سے تین دہائیاں قبل 1990ءمیں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد مجھے روزنامہ جنگ لاہور کے دفتر کے باہر سے اٹھا کر لے گئے تھے۔ اس زمانے میں رات نو دس بجے ڈیوس روڈ پر ٹریفک بہت کم ہوتی تھی اس لئے میرےاغوا کا ساتھیوں کو پتہ نہ چلا۔ اغوا کرنے والے مجھے لاتیں اور گھونسے مارتے ہوئے ظفر علی خان روڈ کی طرف لے گئے اور اپنے کسی افسر کے سامنے پیش کردیا۔

 افسر نے پوچھا کہ آج شام تم نے ایک اسٹوری فائل کی ہے کہ صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس اسٹوری کا سورس کون ہے؟ میرا سورس مولانا کوثر نیازی تھے جنہوں نے صدر مملکت کی تقریر لکھی تھی اور حکومت کی برطرفی کے انتظار میں تھے۔ برطرفی میں تاخیر کے باعث مضطرب ہوئے تو بار بار مجھے پوچھنے لگے کہ حکومت کب جائے گی؟ میں نے ان کے اضطراب میں سے اپنی خبر تلاش کی اور اس زمانے کے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور خواجہ طارق رحیم نے خبر کی تصدیق کردی۔ وزیر داخلہ چودھری اعتزاز احسن سے مزید تصدیق کی کوشش کی تو انہوں نے انتہائی گرجدار انداز میں تردید کردی اور ایک ضمنی الیکشن میں جلسے کے لئے کوئٹہ چلے گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ مجھے خبر کی صداقت کا یقین ہوگیا تو خبر بنا کر نیوز روم کو دے دی اور خبر کے شائع ہونے سے قبل ہی اغواہوگیا۔

اغوا کرنے والے قوم کےمحافظوں نے سورس کا نام جاننے کے لئے میرے ساتھ جو مارپیٹ کی اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ وہ ایک نوجوان صحافی کے کپڑے اتار کر زور زور سے قہقہے لگاتے تھے۔ صحافیوں کے کپڑے اتار کر قہقہے لگانے کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا بلکہ اب تو صحافت کے کپڑے ہی اتارے جا چکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے بہت مارپیٹ کے بعد اپنے بدن پر موجود آخری کپڑا بچانے کے لئے خواجہ طارق رحیم کا نام لے لیا کیونکہ مجھے اچھی طرح پتہ تھا کہ خواجہ صاحب ایک طاقتور خفیہ ادارے کے سربراہ کے دوست تھے۔

 خواجہ صاحب کی آڑ لے کر میں نے اپنے اصل سورس مولانا کوثر نیازی کو بچا لیا۔ اغوا کاروں نے رات گئے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ خبردار پریس کلب جا کر شور مت مچانا کیونکہ ہم پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور تم پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہو۔ اس زمانے میں دی نیشن لاہور کے کرائم رپورٹر حیدر حسن کو میرے اغوا کا کسی نہ کسی طریقے سے پتہ چل گیا۔ انہوں نے اپنے اخبار میں میرے اغوا کی خبر شائع کردی ۔ کچھ دن بعد مولانا کوثر نیازی ذاتی طور پر ملنے کے لئے گھر آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ سورس کا تحفظ کرکے میں نے صحافت کی عزت بچا لی ہے اور یہ کہ ’’آپ کا مستقبل بہت روشن ہے‘‘۔

اس ناچیز نے مولانا کو بتایا کہ اب سمجھ میں آیا کہ والد گرامی پروفیسر وارث میر نے مجھے سختی سے یہ کیوں کہا تھا کہ صحافی بننے کا خیال دل سے نکال دو کیونکہ یہ ایک خطرناک پیشہ ہے۔ جب میں نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھا کر والد صاحب سے پوچھا کہ آپ تو خود صحافت کے استاد ہیں اور روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے ہیں تو مجھے صحافی بننے سے کیوں روک رہے ہیں تو انہوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ ’’جو میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ تمہارے سامنے ہے‘‘۔ 

یہ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا اور جنرل صاحب ایک غیر جماعتی قومی اسمبلی سے شریعت بل منظور کراکےاپنی آمریت کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک دن علامہ احسان الٰہی ظہیر نے میرے والد مرحوم کو خبردار کیا کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے مخالف علماء اور صحافیوں کو خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو اپنا ضمیر فروخت نہیں کرےگا اسے مار دیا جائے گا۔ پھر ایک دن گورنر ہائوس لاہور میں پروفیسر وارث میر کو بلایاگیا اور جنرل ضیاء الحق نے انہیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔ فرمایا ہم آپ کو ڈیپوٹیشن پر پنجاب یونیورسٹی سے وفاقی حکومت میں لائیں گے اور آپ کے علم و فضل سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو اپنا مشیر بنائیں گے۔

والد صاحب نے ایک حکومتی عہدے کے عوض اپنا ضمیر فروخت کرنے سے معذرت کی تو چند دنوں کے بعد انہیں ایک شوکاز نوٹس ملا جس میں کہا گیا کہ آپ تو ایک سرکاری ملازم ہیں آپ حکومت پر تنقید نہیں کر سکتے۔والد صاحب کی طرف سے اس شوکاز نوٹس کا جواب جناب ایس ایم ظفر صاحب نے تیار کیا تھا۔ 

جنرل ضیاء الحق کے بارے میں ان کالب و لہجہ پہلے سے زیادہ سخت ہوگیا اور پھر باری باری بہت سے علماء مارے جانے لگے۔ آغاز علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت سے ہوا۔ پھر وارث میر گئے۔ انہیں زہر دیا گیا جس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ پھر علامہ عارف الحسینی کو شہید کیاگیا لیکن کچھ دنوں کے بعد خود جنرل ضیاء الحق کو بھی اوپر سے بلاوا آگیا۔

 عرض یہ کرنا تھا کہ تین دہائیاں قبل صحافت کے ایک استاد پروفیسر وارث میر نے اپنے برخوردار حامد میر سے کہا تھا کہ صحافی نہ بننا کیونکہ یہ بہت خطرناک پیشہ ہے۔ باپ دنیا میں نہ رہا تو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ حامد میر صحافی بن گیا۔ تین دہائیاں گزرنے کے بعد محمد عسکری کراچی سے اغوا ہوا تو حامد میر کو اپنے باپ کی نصیحت یاد آگئی۔ تیس سال میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ جنرل ضیاء الحق آج بھی زندہ ہے اور ہم بھی زندہ ہیں۔ یہ لڑائی ختم نہیں ہوگی کیونکہ ہمیں اپنے کپڑے بچانے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔