فارس کی زمین پر سات دن

جون 2023، وقت صبح چار بجے، ابھی ایران کی زمین پر قدم نہیں رکھا تھا کہ ایک عجیب سی کیفیت ذہن پر سوار تھی کہ پتا نہیں وہ ملک جو 44 سال سے عالمی پابندیوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، جانے وہاں کیسا ماحول ہوگا؟ شاید بہت گھٹن ہوگی؟ لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ اور اگر وہ جی رہے ہیں تو کیا ان کی سوچ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہوگی بھی یا نہیں؟ ان خدشات نے ذہن میں یہ تصور بٹھا دیا کہ جیسے یہ زمانہ قدیم کا سفر ہوگا۔

اسی ذہنی ادھیڑ پن میں جب صحافیوں کا 6 رکنی وفدعازمِ ایران ہوا تو یہ تاثر خوشگوار حیرت میں تبدیل ہوگیا کیونکہ ایران کے دارالحکومت تہران کا امام خمینی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کسی بھی بڑے بین الاقوامی ائیرپورٹ سے کم نہیں تھا، ائیرپورٹ سے ہوٹل تک کا سفر یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ ایران کسی بھی جدید خلیجی ریاست کی طرح کا ہی ترقی یافتہ ملک ہے، ٹریفک کا رش، واک ٹریکس پر کام کے لیے بھاگتے مرد و زن، کشادہ سڑکیں، پر شکوہ اونچی نیچی عمارتیں جس کا دیدہ زیب فن تعمیر انتہائی پر کشش تھا، سادہ مگر پروقار۔

جانے سے قبل مغربی دنیا کی خبروں کا بنایا گیا منفی تاثر اتنا غالب تھا کہ لگا اگر برقع نا پہنا یا حجاب ذرا بھی سر سے سرک گیا کا تو درے پڑ جائیں گے لیکن حجاب اوڑھنے کے سوا ایران میں قطعی طور پر کوئی پابندی نہ تھی۔

ایک خیال یہ بھی آتا تھا کہ شاید خواتین کا وجود کہیں نہ ملے کیونکہ مغربی میڈیا نے ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ ایران شاید خواتین کی آزادانہ نقل وحرکت کے لیے ایک ممنوعہ یا کٹھن علاقہ ہے، ایک اور حیرت کا جھٹکا تب لگا جب ہوٹل، سڑکوں، دفاتر، ریسٹورینٹس حتی کہ نیوز رومز میں بھی خواتین کسی روٹین کی طرح کام کرتی دکھائی دیں اور اکا دکا نہیں بلکہ مردوں سے برابر تعداد میں۔

دنیا سے کٹ کر ایران کیسے گزارا کر رہا ہے؟

فوٹو/ رپورٹر
فوٹو/ رپورٹر

ایک سوال جس کی جستجو ایران جانے سے پہلے بہت شدید تھی اور وہاں جا کر بھی کئی بار کیا، جیسے جیسے جوابات ملتے گئے افاقہ ہوتا گیا، سوال یہ تھا کہ عالمی پابندیوں میں گھرا یہ خطہ کیسے دنیا سے کٹ کر اپنی بقا کرسکا ہے؟

ایران جا کر ان کی صنعتی نمائش دیکھ کر یہ معلوم ہوا کہ یہ ملک تو تقریباً ہر شعبے میں خودمختاری حاصل کرچکا ہے، چاہے ایک چپس یا چاکلیٹ کا پیکٹ ہو یا ہیوی انڈسٹری، زرعی آلات ہوں یا دفاعی مشینری، ایران میں تمام ضرورتیں مقامی سطح پر پوری کی جارہی ہیں۔

کورونا وبا کے دوران ایران نے جدید وینٹی لیٹرز اور پورٹیبل بیڈز تیار کیے اور دنیا کو برآمد بھی کیے، ایران میں گاڑیوں کے انٹرنیشنل برانڈز بھی کم ہی نظر آتے ہیں ، زیادہ تر گاڑیاں مقامی سطح پر تیار کردہ ہی ہوتی ہیں۔

ایران اور سوشل میڈیا

ایران جاکر جو ایک شدید دشواری رہی وہ رابطہ سازی یا کنیکٹیویٹی تھی، ایران میں انٹرنیٹ تو میسر تھا لیکن ہزار پابندیوں میں جکڑا ہوا، یعنی ایران میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس جیسے فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام وغیرہ کام نہیں کرتیں، ایرانی عوام کے لیے مقامی سطح پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمزبنائے گئے ہیں اور بین الاقوامی رابطوں کے لیے پراکسی کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

اس صورتحال میں شعبہ صحافت سے منسلک افراد کا گزارا واقعی مشکل ہو رہا تھا، اس کا حل ہمار ساتھ موجود گائیڈ کا انٹر نیٹ تھا لیکن یہ کوئی مستقل حل نہ تھا کیونکہ عمومی طور پر وائی فائی کی رفتار اتنی سست تھی کہ اہلخانہ یا ملک میں دفاتر سے رابطہ کئی وقفوں میں ممکن ہو پاتا۔

ایرانی دسترخوان کیسے مکمل ہوتے ہیں؟

کباب جیسے کہ شیش کباب، چلو کباب وغیرہ اور ابلے چاول فارسیوں کی پسندیدہ خوراک ہیں لیکن ایرانی دسترخوان مکمل تب ہی ہوتا ہے جب سلاد ساتھ ہو اور سلاد سے مراد کوئی ایک طرح کا نہیں بلکہ کئی قسموں کے سلاد ہیں، دورانِ سفر فارسی کھانوں میں دلچسپی بڑھانے والے ہمارے وفد کے رکن سینئر صحافی وسیم عباسی بھی تھے کیونکہ ان کا مؤقف تھا کہ کسی بھی ملک میں جاکر وہاں کے مخصوص کھانے نا چکھے تو کیا ہی سفر کیا۔

ایران کے بڑے سے بڑے مال میں چلے جائیں یا عام سی دکان میں، کہیں بھی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی اشیاء دکھائی نہیں دیتیں، ایک معمولی سا چپس کا پیکٹ بھی خریدنا ہو تو وہ بھی مقامی سطح پر ہی تیارشدہ ملتے ہیں۔

کیا ایران میں انگریزی زبان پر پابندی ہے؟

باقی دنیا کے برعکس ایران میں کہیں بھی دیو قامت سائن بورڈز نظر نہیں آتے، آتے بھی ہیں تو ان پر تصاویر نہیں ہوتیں اور زبان صرف فارسی ہی درج ہوتی ہے، جب ہمارے وفد کے ساتھ مامور ایرانی گائیڈ سے اس متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایران میں انگریزی زبان سکھائی اور چھٹی جماعت سے پڑھائی تو جاتی ہے لیکن سرکاری زبان کے طور پر فارسی رائج ہے اور ایرانی بات چیت میں فارسی زبان بولنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

فوٹو رپورٹر
فوٹو رپورٹر

فارسیوں کو اپنی زبان سے اتنی رغبت ہے کہ وہ بات چیت میں بھی انگریزی کے الفاظ نہیں بولتے، ایک موقع پر جب ہم صحافی آپس میں اردو میں بات کر رہے تھے اور چونکہ اردو میں انگریزی الفاظ کا استعمال اب معمول بن چکا ہے تو ایرانی میزبان نے یہ حیرانگی سے یہ پوچھ بھی ڈالا کہ اردو میں کیا انگریزی کے الفاظ بھی شامل ہیں؟

فارسیوں کو پاکستانیوں سے مل کے ایک شاک یہ بھی لگا کہ سمجھ آئے یا نا آئے لیکن حروف تہجی ایک سے ہونے کی وجہ سے ان کی زبان بغیر دقت کے پڑھ سکتے تھے، ایرانی یہ جان کر بھی حیران تھے کہ اردو میں بیشتر الفاظ فارسی سے ہی اٹھائے گئے ہیں، مثال کے طور پر خدانخواستہ، نواب زادہ، آبدوز، نشست، وغیرہ وغیرہ

اصفہان نصف جہاں

فوٹو/ رپورٹر
فوٹو/ رپورٹر

ایرانی ثقافت کئی ہزار سال پرانی تو ہے لیکن اس قوم کا اپنی تاریخ سے لگاؤ دیدنی ہے، ایران کا شہر اصفہان جو پہلے دارلحکومت بھی تھا، کئی سو سال پرانے محل، مساجد، چرچ اور مندر خود میں سموئے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا شاندار مرکب ہے، اصفہان میں فارس کی ثقافت کے وہ تمام رنگ موجود ہیں جو کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے فرد کی توجہ کا مرکز بن سکے۔

ایران کے بارے میں یہ تاثر بھی درست نہیں کہ وہاں کل آبادی مسلمانوں ہی کی ہے، ایران میں آرمینین، مسیحی اور آتش پرست بھی آباد ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کو بھی محفوظ بنایا گیا ہے۔

کیا ایران واقعی صرف قدیم ملک ہے؟

ایران کے دارالحکومت تہران میں دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ مالز میں شمار ہونے والا ایران مال ہے جس میں انٹرنیشنل برانڈز کی شاپس کے ساتھ ساتھ لائبریری، شیش محل، ایرانی کارپیٹس کا سیکشن بھی ہے۔

فوٹو/ رپورٹر
فوٹو/ رپورٹر

اسی طرح تہران میں دنیا کے بلند و بالا ٹاورز میں سے ایک میلاد ٹاور بھی ہےجس کے چھت سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے لہذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایران نے اپنی قدیم تاریخ کومحفوظ تو بنایا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ جدت کو ملک میں متعارف کرانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

ایرانی اپنے ہیروز کو کیسے یاد رکھتے ہیں؟

فوٹو/ رپورٹر
فوٹو/ رپورٹر

ایران کے دارلحکومت تہران میں داخل ہوتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس قوم کو اپنے ہیروز سے کس قدر پیار ہے، کوئی چوک چوراہا ایسا نہیں جہاں شہدا، سائنسدانوں، مصنفوں یا استادوں کی تصاویر یا مجسمے نصب نہ ہوں، مثال کے طور پر جنرل قاسم سلیمانی، جن کا چرچا پاکستان میں بھی رہا، ان کے مجسمے جگہ جگہ آویزاں تھے۔

کیا ایرانی پاکستان کو جانتے بھی ہیں؟

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کے صحافیوں سے ملاقات میں جب پاکستان کے وفد میں شامل سینئر صحافی وسیم عباسی نے جب شمالی علاقہ جات کی اہمیت کا بتایا تو ایرانی میزبان نے کہا کہ معلوم ہوتا کہ پڑوس میں اتنے خوبصورت اور پرفضا سیاحتی مقامات موجود ہیں تو وہ لاکھوں روپے خرچ کرکے یورپ نہ جاتے۔

ایک حیران کن موقع تب بھی آیا جب ایران کے سرکاری اخبار کے ایڈیٹر نے یہ سوال کیا کہ کیا بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے؟ تب وفد میں شامل سینئر دفاعی رپورٹر سمیرا خان نے ان کوپاکستان کے تمام صوبوں اور اس کے سفارتی تعلقات سے متعلق آگاہ کیا جو ان کے لیے بھی حیران کن تھا اور جواباً انہوں نے اعتراف کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے پاکستان کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے۔

ایران سے کیا سبق حاصل کیا؟

فارس کی سرزمین نے وہاں گزرے 7 دنوں میں رہتی زندگی کے لیے یہی سبق دیا کہ جو قومیں اپنی تاریخ، ثقافت اور اقدار سے جڑی اور ان سے سبق حاصل کرتی ہیں، ان کے مدِ مقابل دنیا کی کتنی ہی بڑی طاقتیں آجائیں، اس قوم کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتیں۔

ایران میں پاکستان کے بارے اور پاکستان میں ایران کے متعلق علم نہ ہونے کے برابر ہے، دونوں ممالک میں حال ہی میں تجارتی منصوبوں کا آغاز تو ہوا لیکن قربت کے لیے شہریوں کی آمدورفت میں بھی تیزی لانے کی ضرورت ہے، ایران کا سفر بذریعہ سڑک ہوسکتا ہے، اس لیے ایک بار موقع ملنے پر اس دلچسپ اور تاریخی ملک کی سیر ضرور کیجیے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔