Time 17 جولائی ، 2023
بلاگ

چمگادڑ، ناگن اور صحافی

برسلز پریس کلب کے پُرسکون ماحول میں خالد حمید فاروقی کی آنسو بھری آنکھیں میرا پیچھا کرتی رہیں۔ وہ جب بھی ملتا تو برسلز پریس کلب آنے کی دعوت دیتا۔ پورے یورپ میں متحرک اس صحافی دوست سے کبھی پیرس، کبھی برلن، کبھی جنیوا اور کبھی ایمسٹرڈم میں کسی کانفرنس میں ملاقات ہوتی تو وہ بڑے پیار سے کہتا کہ صرف ایک دِن دے دو، صبح اپنی گاڑی میں ڈرائیو کر کے آپ کو برسلز لیکر جائوں گا، پریس کلب میں آپ کی عزت افزائی کروں گا اور شام تک جہاں کہیں گے واپس چھوڑ دوں گا۔ 

2016ء میں مجھے نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں فری پریس اَن لمیٹڈ کی طرف سے آزادیٔ صحافت کا عالمی ایوارڈ دیا گیا تو خالد حمید فاروقی آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھ سے لپٹ گیا۔ پھر وہ ایک کونے میں سسکیاں لے کر رونے لگا تو میں اُس کے پیچھے گیا اور پوچھا کہ کیا ہوا؟ اُس نے کہا کہ کئی سال سے یورپ میں جیونیوز کے لئے رپورٹنگ کر رہا ہوں، یہاں ہمیشہ پاکستان کے بارے میں بُری بُری خبریں ملتی ہیں لیکن بہت عرصے کے بعد ایک اچھی خبر ملی ہے۔ 

2021ء میں ایک دفعہ پھر خالد حمید فاروقی سے دی ہیگ میں ملاقات ہوئی۔ اس دفعہ فری پریس اَن لمیٹڈ نے بنگلہ دیشی صحافی روزینہ اسلام کے لئے ایوارڈ کا اعلان مجھ سے کرایا۔ ایک دفعہ پھر خالد حمید فاروقی آنسو بھری آنکھوں سے میرے ساتھ لپٹ گیا۔ وہ بہت حساس دِل کا مالک تھا اور پاکستان کے بارے میں بہت پریشان رہتا تھا۔

 دو سال پہلے جب مجھ پر پابندی تھی تو خالد حمید فاروقی میرے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے لئے لندن جا پہنچا اور وہاں سے فون کر کے کہا کہ اگلا مظاہرہ برسلز میں ہے کم اَز کم آن لائن شرکت تو کر لو۔ میں نے ہامی بھر لی لیکن پھر اس کا کوئی فون اور پیغام نہیں آیا۔

 گزشتہ ہفتے میں برسلز پریس کلب میں داخل ہوا تو خالد حمید فاروقی برسلز کے ایک قبرستان میں اَبدی نیند سو رہا تھا لیکن اُس کی آنسو بھری آنکھیں وہاں میری منتظر تھیں۔ برسلز میں مجھے میرا مرحوم دوست بار بار یاد آتا رہا۔ یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس (یورپی یونین کا محکمہ خارجہ) کی دعوت پر کچھ دیگر پاکستانی صحافیوں کے ساتھ برسلز پہنچا تو سب سے پہلی ملاقات یورپی یونین کے ترجمان برائے امور خارجہ پیٹرسانتو کے ساتھ تھی اور انہوں نے ملاقات کے آغاز میں ہی خالد حمید فاروقی کا ذکر کر کے ہمیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔

پیٹر سانتو نے خالد حمید فاروقی کا ذکر ایک ایسے کہنہ مشق صحافی کے طور پر کیا جس کا سب سے بڑا ہتھیار اُس کے سوالات ہوا کرتے تھے۔ سانتو نے کہا کہ خالد حمید فاروقی کی وفات کے بعد ایک بھارتی صحافی ہم سے مشکل سوال کرتا ہے تو ہمیں فاروقی یاد آ جاتا ہے۔ 

برسلز میں ایک غیرملکی سفارتکار کی زبان سے فاروقی کی تحسین سُن کر میرا سر فخر سے بُلند ہوگیا۔ فاروقی کا تعلق لاڑکانہ سے تھا لیکن تعلیم کراچی میں مکمل کی اور جب جنرل ضیاء الحق کے جبر کا دَور شروع ہوا تو اُس نے یورپ میں پناہ لے لی۔ پاکستان سے دُور ہونے کے باوجود اُس کا دِل پاکستان میں اَٹکا رہتا۔ 

یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر میں جموں و کشمیر کے حالات پر اُس کے سخت سوالات پر یورپی سفارتکار کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے لیکن اگر کبھی پاکستان میں اِنسانی حقوق کی صورتحال پر فاروقی کوئی سوال کرنے کی گستاخی کر بیٹھتا تو پھر پاکستان میں اُس کے خاندان کے افراد پر مصیبت آجاتی۔ 

یورپی انسٹی ٹیوٹ فار ایشین اسٹڈیز کے زیراہتمام برسلز میں ایک سیمینار کے دوران بھی بہت سے مقامی صحافیوں نے خالد حمید فاروقی کی پیشہ ورانہ قابلیت کو سراہا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو ہمارے دوست کی کون سی خُوبی بہت اچھی لگتی تھی؟ ایک سینئر یورپی سفارتکار نے کہا کہ خالد حمید فاروقی اپنے رویّے سے اپنے آپ کو ہم پر مسلّط نہیں کرتا تھا، اُس کے سوال میں بہت کاٹ ہوتی لیکن لہجے میں بدتمیزی اور تضحیک نہیں ہوتی تھی۔ ایک اور صحافی نے کہا کہ وہ چمگادڑ کی طرح مائیک کے ساتھ مخاطب کو چمٹتا نہیں تھا بلکہ احترام کے ساتھ سوال کرتا اور اگر کوئی جواب دینے سے معذرت کرتا تو وہ راستے سے ہٹ جاتا۔ 

یہ ایک اہم خُوبی ہے جو صحافی کے لئے عزت افزائی کا باعث بنتی ہے۔ جو صحافی سوالات کے ذریعہ کسی کی تضحیک کرتے ہیں اُنہیں خبر کم اور بے عزتی زیادہ ملتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ظالم و جابر حکمرانوں کو للکارنا بند کر دیں۔ اگرچہ صحافی کوچمگادڑ نہیں بننا چاہئے لیکن ریاست کو بھی ناگن نہیں بننا چاہئے جو اپنے بچّے خود کھا جاتی ہے۔ جو ریاست اپنے ہی بچّوں کو غائب کر دے یا ہڑپ کر جائے اور آئین کو نیست و نابود کر دے اُس ریاست کو خالد حمید فاروقی جیسے صحافی ملک دُشمن نظر آتے ہیں اور پھر ایسے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اُن پر کچھ چمگادڑیں چھوڑ دی جاتی ہیں۔ برسلز میں ایسی ہی کچھ چمگادڑوں نے ہمارا بھی پیچھا کیا۔

ایک چمگادڑ نے کہا کہ سُنا ہے آپ پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس منسوخ کرانے آئے ہیں۔ جب میں نے چمگادڑ کو بتایا کہ یورپی یونین نے جی ایس پی پلس اسٹیٹس میں توسیع کر دی ہے تو چمگادڑ لاجواب ہو گئی۔ ایک اور چمگادڑ بھی مائیک لے کر مجھ پر جھپٹ رہی تھی اور پوچھ رہی تھی آپ پاکستان کا امیج خراب کرنے کیوں آئے ہیں؟ میں نے جواب میں پوچھا کہ پچھلے سال سوئٹزرلینڈ میں ایک سیمینار میں مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں آپ کو سنسرشپ کا سامنا ہے؟ مجھے ہاں میں جواب دینا پڑا کیونکہ مجھ پر پابندی تھی اور عمران خان کی حکومت اس پابندی پر خاموش تھی۔

 اس مرتبہ بیلجیم میں سیمینار کے دوران سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو آج بھی پابندیوں کا سامنا ہے تو مجھے پھر ہاں میں جواب دینا پڑا کیوں کہ بہت سے صحافیوں کو مقدمات کا سامنا ہے، کچھ لاپتہ ہیں اور باقی غیراعلانیہ پابندیوں کا شکار ہیں۔ میں نے چمگادڑ سے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان کے کسی ٹی وی چینل پر قاسم کے اَبّا کا نام لے کر اُس پر تنقید کر سکتے ہیں؟ سوال سُن کرچمگادڑ بھاگ نکلی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔