20 جولائی ، 2023
عجیب زمانہ آ گیا ہے۔ سچ بولنا ایک خوبی نہیں بلکہ بہت بڑی خامی بن چکاہے کیونکہ سچ بولنے والے اکثر اوقات ہار جاتے ہیں۔جھوٹ بولنے والے آپ کو لاجواب کر دیتے ہیں۔ آپ بھی اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو جانتے ہونگے جو اپنے جھوٹ سے آپ کو لاجواب کردینے کی مہارت رکھتے ہیں اور ان کا سفید جھوٹ آپ کو خاموش کر دیتا ہے۔ جھوٹ سفید ہو یا سیاہ لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔
جھوٹ بولنے والے جیت کر بھی ہار جایا کرتے ہیں اسی لئے ایک محاورہ مشہور ہے کہ ’’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘‘ سچ یہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی کوے کو جھوٹوں کو کاٹتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن خدشہ ہے کہ جناب پرویز خٹک کو کوئی کوا ضرور کاٹے گا۔پرویز خٹک نے پچھلے ایک سال میں کم از کم ایک سو ایک مرتبہ یہ بیان دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ دھوکے اور بے وفائی کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے ۔انہوں نے بار بار کہا کہ وہ خان صاحب کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے ۔جب بھی پرویز خٹک بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے گٹے(ٹخنے) جوڑ کر عمران خان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرتے تو ہمیں مرزا غالبؔ یاد آتے جنہوں نے فرمایا تھا۔
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ایک طرف پرویز خٹک بار بار عمران خان کے ساتھ وفاداری کی ڈگڈگی بجاتے رہے دوسری طرف ہم مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ خٹک صاحب بہت جلد تحریک انصاف چھوڑ دیں گے اور نئی پارٹی بنائیں گے ۔ خٹک صاحب نے مجھ ناچیز سمیت کچھ دیگر صحافیوں کے دعوؤں کی بار بار تردید کی اور ہمیں خاموش کرانے کیلئے کہا کہ میڈیا جھوٹا پروپیگنڈہ بند کرے۔
میں نے پرویز خٹک کے ارادوں پر 9مئی سے پہلے تبصرہ شروع کیا تھا ۔9مئی کے بعد خٹک صاحب نے تحریک انصاف میں نقب لگانے کیلئے میل ملاقاتیں شروع کیں تو تین چار سابق وزراء نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ تھا کہ پرویز خٹک نئی پارٹی بنا رہا ہے ؟میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو ان صاحبان نے کہا کہ موصوف نے ہمیں عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کیلئے کہا ہے۔ جن لوگوں نے مجھے خٹک صاحب کے ارادوں کے بارے میں بتایا ان میں سے کسی نے ابھی تک انکی نئی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ یہ حضرات جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے کیلئے بھی تیار نہیں ۔
استحکام پاکستان پارٹی سامنے آنے کے بعد میں نے ایک دفعہ پھر کہا کہ پرویز خٹک اپنی نئی جماعت بنائیں گے۔مجھے حیرت ہوئی کہ خٹک صاحب نے اپنی جماعت بنانے کے اعلان سے دو دن قبل بھی تردیدی بیان جاری کیا اور کہا کہ وہ کوئی پارٹی نہیں بنا رہے ۔ خٹک صاحب کی اس تردید نے تو مجھے بھی چکرا دیا لیکن اگلے ہی دن ایک مفرور دوست کا فون آ گیا۔ اس نے اپنی داستانِ غم سنانے کے بعد کہا کہ کل خٹک صاحب نئی جماعت کا اعلان کرنے والے ہیں۔اور مجھے اپنے ساتھ بٹھانا چاہتے ہیںاگر میں ان کے قابو نہ آیا تو پھر میرے خاندان کے ساتھ نجانے کیا ہو گا؟ اس مفرور نے مجھے آٹھ ساتھیوں کے نام گنوائے جو تحریک انصاف چھوڑنے کی بجائے سیاست چھوڑنے کو ترجیح دیں گے۔
ان میں سے اکثر عمران خان کے پرانے ساتھی ہیں اور ان سب کا یہ خیال ہے کہ 9مئی کو جو کچھ بھی ہوا اس کے اصل ذمہ دار عمران خان ہیں جنہوں نے چند مفاد پرست خوشامدیوں کے بہکاوے میں آکر ریاست کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور پارٹی کا خانہ خراب کر دیا۔ عمران خان کے یہ پرانے ساتھی خان صاحب سے سخت شاکی ہیں لیکن پرویز خٹک کی پارٹی میں جانے کیلئے تیار نہیں کیونکہ یہ خٹک کو بھی ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں۔یہ پہلو بڑا دلچسپ ہے کہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں عثمان بزدار کو پنجاب اور محمود خان کو خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ بنا کر اپنے بہت سے پرانے ساتھیوں کی حوصلہ شکنی کی۔
عثمان بزدار کئی پارٹیاں بدل کر تحریک انصاف میں آئے۔ محمود خان بھی پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے ۔2013ء میں محمود خان صوبائی وزیر تھے اور کرپشن کے الزام میں انہیں کابینہ سے نکالا گیا لیکن پرویز خٹک نے انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کرلیا۔بزدار اور محمود خان دراصل عمران خان کی طرف سے نئے پاکستان اور کرپشن فری سیاست کے دعوئوں کی چلتی پھرتی تردید تھے۔عمران خان نے تمام تر دبائو کے باوجود انہیں وزارتِ اعلیٰ سے نہیں ہٹایا لیکن ان دونوں پر تھوڑا سا دبائو آیا تو یہ دُم دبا کر تحریک انصاف سے بھاگ نکلے۔بزدار اور محمود خان کا تحریک انصاف سے بھاگنا دراصل عمران خان کی سیاسی بصارت میں خامیوں کا ثبوت ہے۔
عزت اور ذلت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے ۔عمران خان نے سب کچھ جانتے ہوئے نااہل اور کمزور افراد کو دو صوبوں کا وزیر اعلیٰ بنایا۔ مشکل وقت میں ان دو سابق وزرائے اعلیٰ کو عمران خان کے ساتھ کھڑا نظر آنا چاہئے تھا لیکن ان دونوں نے خان صاحب کے ساتھ وہی کچھ کیا جو خان صاحب کرکٹ اور سیاست میں اپنے بہت سے محسنوں کے ساتھ کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ کا اصل کریڈٹ کسی اور کو نہیں خود خان صاحب کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی سیاست بچانے کیلئے کبھی جہاد کا اعلان کیا اور کبھی قرآنی آیات کا سہارا لیا۔
خان نے سیاسی اختلاف کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دیا لیکن صرف دو ماہ میں انکی پارٹی میں سے دو نئی پارٹیاں جنم لے چکی ہیں۔ان دو پارٹیوں کا جنم یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی پاور پالیٹکس اور عوامی مقبولیت دو مختلف چیزیں ہیں۔ووٹ پاور اوراسٹریٹ پاور بھی دو مختلف چیزیں ہیں۔جنہوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا وہ بھی آج پاور پالیٹکس کر رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی نئی پارٹیاں دراصل شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کیلئے بھی خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔استحکام پاکستان پارٹی پنجاب اور پرویز خٹک کی پارٹی خیبر پختونخوامیں ایک ایسی طاقت بننے کی کوشش کریگی جس کے بغیر بڑی پارٹیاں نہ اپنا من پسند وزیر اعلیٰ لاسکیں گی نہ ہی وزیر اعظم لاسکیں گی۔
کچھ عرصہ قبل بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے جو لوگ پیپلز پارٹی میں گئے تھے وہ بھی واپس باپ کے پاس جا رہے ہیں۔شاید اسی لئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر ایسی نگران حکومت لانا چاہتی ہیں جو 2023ء میں الیکشن کرا دے اور الیکشن کو 2024ء تک نہ کھینچے۔ پاور پالیٹکس کی بنیاد سچ نہیں جھوٹ ہوتا ہے ۔پاور پالیٹکس وفاداری کی شکست اور بے وفائی کی جیت کا نام ہے۔پاورپالیٹکس میں سیاست دان جیت جاتے ہیں اور عوام ہار جاتے ہیں۔بے بس عوام صرف یہی دعا کرسکتے ہیں کہ ان کے ساتھ جھوٹ بولنے والوں کو ایک دن کوئی کوا ضرور کاٹے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔