02 اگست ، 2023
ایک ایسے وقت میں جب ملک میں ہائی سکیورٹی الرٹ تھا باجوڑ واقعہ نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ شاید صورتحال ا س سے بہت زیادہ سنگین ہے۔ جتنی کہ ہم سمجھ رہے ہیں۔ لگتا ہے دہشت گردوں کے سلیپر سیل دوبارہ محترک ہو گئے ہیں۔ آئے دن سکiورٹی اہلکاروں پرحملے، ٹارگٹ کلنگ اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے اثرات سے نکلنا آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
مگر بدقسمتی سے ہماری سمت درست نہیں کیونکہ اس حوالے سے ہماری اشرافیہ کی سوچ کا دائرہ بہت محدود اور تنگ نظری کا شکار ہے ویسے بھی جہاں سوچ پرپہرے بٹھائے جا رہے ہوں اور ایسے قوانین بنائے جا رہے ہوں جس سے میڈیا اور سیاست کو کنٹرول کرنا ہو وہاں نئی سوچ کے ساتھ آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ باجوڑ خودکش دھماکہ کا بظاہر ٹارگٹ جمعیت علما اسلام تھی مگر دراصل یہ حملہ اس دہشت گردی کی دوبارہ ابتدا اسی طرز پر ہونےکی طرف اشارہ ہے جو ہم نے 2013 کے انتخابات کے دوران دیکھی تھی۔
جس کا نشانہ وہ سیاسی و مذہبی جماعتیں تھیں جو پارلیمانی طرز جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں اور خاص طور پر روشن خیال جماعتیں۔ اسی لئے اس وقت سب سے زیادہ نشانہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی بنیں اور عملاً ان کیلئے الیکشن لڑنا مشکل ہوگیا تھا۔ خودJUI کے کئی رہنما بشمول مولانا فضل الرحمان تین بار حملوں میں محفوظ رہے مگر ان کے کئی ساتھی شہید ہوئے۔ دہشت گردی کی اس تازہ لہر کا تعلق پاکستان اور طالبان کی افغان حکومت کے مابین کشیدہ تعلقات سے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں ان کے حامی گروپس کی تعداد کم نہیں مگر اب تک اس واقعہ کی ذمہ داری ان میں سےکسی نےقبول نہیں کی ،جو عام طور پر ذمہ داری لیتے ہیں۔
یہ واقعہ ہمارے لئے باعث شرمندگی بھی ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت ہوا جب چین کے نائب وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر تھے اور دونوں ملک سی پیک کے 10سال مکمل ہونے پر مزید آگے بڑھنے کے راستے تلاش کررہے تھے یقینی طور پر سکiورٹی کے حوالے سے خاص طور پر سی پیک کی وجہ سے ہمیں اور بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
بہت تاخیر سے ہی سہی مگر ہماری ریاست نے 2008 میں جاکر یہ فیصلہ کیا کہ اب دہشت گردی کے خلاف بھر پور جنگ کرنی ہے کیونکہ سابقہ فاٹا، سوات، بلوچستان یہاں تک کہ کراچی میں بھی ریاست کی رٹ ختم ہورہی تھی جس کی بہت بڑی قیمت ہم نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کی صورت میں چکائی۔ یہی نہیں ایک بار ایک اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز خودکش حملے میں بال بال بچے۔ سابق صدرپروپز مشرف پر دو خود کش اور فدائی حملے ہوئے ،کورکمانڈر کراچی پر حملہ ہوا۔ یہ غیر معمولی واقعات تھے۔ شمالی وزیرستان جنوبی وزیرستان، مالا کنڈ، سوات ریاست پاکستان کے ہاتھ سے عملاً نکل چکے تھے۔
صورتحال 9/11کے بعد انتہائی خراب ہو چکی تھی۔ مگر اس سے پہلے بھی ملک فرقہ واریت اور لسانی فسادات کی لپیٹ میں تھا جس کی وجہ سے اگست2001میں فرقہ وارانہ گروپس پر پابندی لگی مگر یہ پابندیاں محض کاغذی تھیں پھر جنوری 2002 میں جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی لیکن یہ گروپس محترک رہے اور دوسرے ناموں سے منظر عام پر آ گئے۔ دوسری طرف 2002 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان پرحملے کے باعث پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے امریکی مخالف مظاہروں اور بیانیے نے ملک میںامریکہ مخالف فضا پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے 2002 کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو انتخابات میں فائدہ ہوا اور کے پی میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ بہرحال 2008 سے اب تک ہم نے دہشت گردی کیخلاف ایک بڑی جنگ لڑی اور ان علاقوں کو جو ریاست کے ہاتھوں سے نکلے جا رہے تھے، واپس لیا ۔
پھر ایک بڑا سیاسی فیصلہ فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کا تھا۔ اس جنگ میں ہمارے ہزاروں لوگ شہید ہوئے جن میں سیکورٹی اہل کار، افسران، سیاسی، مذہبی قائدین اور عام آدمی شامل تھے۔ مگر جس چیلنج کا سامنا ہمیں 9/11سے بہت پہلے سے ہے وہ انتہا پسندی اور عدم برداشت ہے، جس میں بہت بڑا عمل دخل ہماری ریاستی پالیسیوں کا ہے۔ میں ہمیشہ اس بات کا قائل رہا ہوں کہ ہمیں مدرسہ ریفارمزکی نہیں اسکول ریفارمز کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں انتہا پسندی کی جڑیں پرانی ہیں۔ 70کی دہائی میں جب اینٹی امریکہ سے زیادہ اینٹی کمیونسٹ تحریکیں زور پر تھیں تو کراچی میں پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ کو ایک انتہا پسند نے ہلاک کر دیا تھا۔
90 کی دہائی میں جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ نے 200سے زائد اخوان المسلمین کےان جہادیوں کو جو پہلی افغان جنگ کے بعد سے پاکستان میں تھے مصر کی حکومت کے حوالے کیا تو 1995میں مصر کے سفارت خانہ کو خود کش کار حملے میں اڑا دیا گیا۔ اسی ایک سال میں دو امریکی سفارت کار کراچی میں نرسری کے قریب ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔ پاکستان میں ان غیر معمولی واقعات کو سنجیدگی سے ہماری ریاست نے نہیں لیا پھر جب پہلی بار امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملےکیلئےکوشاں رمزی یوسف کو امریکہ نے پکڑا تو پتا چلا وہ پاکستان آتا جاتا رہتا تھا اور وہاں ٹریننگ لی تھی۔
یہ سارے واقعات جن کی صرف ہلکی سی جھلک پیش کی ہے ، پاکستان کو عالمی ریڈار پر لے گئے کیونکہ پہلی افغان جنگ کے خاتمے پر عرب اور افریقی ممالک کے وہ ہزاروں مجاہدین پاکستان میں ہی رہ گئے کیونکہ ان کے اپنے ملکوں نے انہیں لینے سے انکار کر دیا۔ پالیسیاں جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی ہوں یا جنرل پرویز مشرف کی،ہماری سرزمین لہولہان ہو گئی اور آج تک ہم اس سے نکل نہیں پا رہے۔کوئی قوم پرستی کے نام پر توکوئی مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھا لیتا ہے اور جس کو وہ اپنا مخالف سمجھتا ہے ،ہلاک کر دیتا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا کچھ دیر کیلئے ہم نے آنکھیں کھولیں بھی اور ’’قومی الیکشن پلان‘‘ بنا لیا اور پھر سو گئے تو باجوڑ تو ہونا ہی تھا۔
رہ گئی بات سیاستدانوں ،پارلیمنٹ اور عدلیہ کی تو انہیں آپس کی رسہ کشی سے فرصت ملے تو وہ اس طرف توجہ دیں ابھی تو پارلیمنٹ اپنے آپ کو کمزور سے کمزور تر کرنے والی قانون سازی میں لگی ہے۔ آزادی اظہار کو سلب کرنیوالی قانون سازی ہو رہی اور توہین پارلیمنٹ کے نام پر توہین عوام کی جارہی ہے۔ ایسے میں بیانات ، چند تقاریراور مذمت کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں لیکن اگر ان واقعات کو نہ روکا گیا تو نومبر کا الیکشن خونیں ہو سکتا ہے۔ اب یہ بوجھ بھی شاید نگراں کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ وزیر اعظم کو تو تختیاں لگانے اور سنگ بنیاد رکھنے سے ہی فرصت نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔