پاک سر زمین پر امریکی ہار

چین کے اشتراک سے پاکستان میں سی پیک منصوبہ پرعملدرآمد شروع ہوا تو دھڑکا ’’جلد عالمی سازشوں کی بھینٹ چڑھ جائے گا‘‘۔ 2015سے درجنوں بار اپنے کالموں میں رٹ لگائی ، ’’سی پیک کی تکمیل چین کیلئے بے حد ضروری جبکہ امریکہ کیلئے سوہان روح ‘‘ ۔ بلا شبہ سی پیک اقتصادی سے زیادہ دفاعی تزویراتی منصوبہ تھا۔

 دورائے نہیں کہ چین کا مفاد پاکستان کے سیاسی استحکام ، خوشحالی اور امن و امان سے جڑا جبکہ امریکہ کی دلچسپی ہمارے عدم استحکام ، اقتصادی ابتری اور بدامنی سے ہے۔ چین نے بلا تفریق جمہوری حکومت ہو یا فوجی ڈکٹیٹر، صدقِ دل سے ہماری مدد کی۔ دوسری طرف امریکہ نے پاکستان پر ڈالرز کی بوچھاڑ فوجی ڈکٹیٹرز کے زمانے میں کی جبکہ جمہوری حکومتوں کے دوران پابندیاں لگیں۔ چین ہمیشہ سے پاکستان کی اندرونی سیاست سے لاتعلق رہا جبکہ امریکی ہاتھ ہر حکومتی اُکھاڑ پچھاڑکے پیچھے کار فرما رہا۔ لیاقت علی خان، بھٹو، جنرل ضیاالحق، بینظیر بھٹو کے قتل میں امریکی نقش پا ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔امریکی مدد کا ایک پہلو اور بھی ، ہمیشہ سے یقینی بنایا کہ پاکستان کوجینے دو نہ مرنے، دونوں مدوں میں امریکہ کا دست ِنگررہے۔

دو دن پہلے اسلام آباد میں ’’سی پیک منصوبہ کی دَہائی ‘‘تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ وزیراعظم پاکستان اور چینی نائب وزیراعظم مہمانان خصوصی تھے۔ تقریب میں جاکر اندازہ ہوا کہ بظاہر دس سالہ سالگرہ تقریب پس پردہ سی پیک کے دوسرے دور کا آغاز تھا۔ اگلے دن امریکی دفترخارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا تبصرہ کہ’’چینی نائب وزیراعظم کے دورہ پاکستان کو بنظر غائر دیکھ رہے ہیں، چین کی سرمایہ کاری میں شفافیت چاہتے ہیں‘‘ ۔ یعنی کہ امریکہ میں فکر کے الارم بج گئے ۔ نوازشریف حکومت کے خاتمہ کی بڑی وجہ سی پیک معاہدوں کا آغاز تھا۔ نواز شریف کو جب اس پر سزا ملی تو اُنکا نقصان کم ،پاکستان کی تباہی زیادہ ہوئی۔

افسوس کہ تین کا ٹولہ ( جنرل باجوہ، عمران خان اور ثاقب نثار) استعمال میں رہا۔ 7 جنوری 1951 سے جنرل باجوہ تک، فوجی سربراہان کی بڑی اکثریت امریکی دلجوئی کیلئے مملکت کو تختہِ مشق بنانے میں کبھی نہ ہچکچائی۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پہلا سربراہ جو امریکی اثرو رسوخ سے آزاد، چین کیساتھ گہرے رابطے میں ہے۔ 

چین کے دوبارہ اعتماد بحال ہونے میں سو فیصد کردار جنرل عاصم منیر کا ہی ہے۔ بڑی وجہ یہی کہ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کیلئے عمران خان اور جنرل باجوہ ہر انتہا پر گئے۔ جنرل باجوہ کی بدنیتی کہ جنرل عاصم منیر کی 6\7 ہفتے کی نوکری ہڑپ کی تاکہ دوڑ سے باہر ہوجائیں، ادارے کو جھونک ڈالا۔ عمران خان نے ہر حد ٹاپی ، جنرل عاصم منیر کا نوٹیفیکیشن رُکوانے کیلئے 26 نومبر کو لانگ مارچ کر ڈالا ۔تعیناتی رُکوانے کیلئے جنرل باجوہ کی اسکیم بظاہر فول پروف تھی ، عمران خان کی حکومت ہٹاکر اتحادی حکومت نہیں نگران حکومت کا قیام ۔ مقصد بذریعہ نگران حکومت خود کو توسیع دینا تھا۔ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنا، مارشل لالگانا، ملک کے اندر خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا، عمران خان اور اتحادی حکومت کو اپنی توسیع کیلئےراضی کراناکہ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی نہ ہو سکے ، بے شُمار کرنے کے کام ادھورے رہ گئے کہ جنرل باجوہ کی اسکیم اللہ کی اسکیم کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔اس کشمکش میں پاکستان تاریخ کے بد ترین سیاسی بحران اور غیر یقینی کی دلدل میں دھنس گیا، سی پیک منصوبہ اسکی بھینٹ چڑھ گیا۔

سی پیک منصوبہ کا خاتمہ بالخیر مسلم لیگ ن حکومت کی رخصتی کیساتھ نتھی تھا۔ سی پیک منصوبہ عامیانہ اندازسے شروع ہو اکہ امریکی نظروں میں نہ کھٹکے۔ لگ بھگ 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ہوا۔ جب شروع ہوا تو 35 ارب ڈالر کے منصوبے روبہ عمل تھے،چند ماہ میں 60 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔ اندرون خانہ آنیوالے دنوں میں کئی سو ارب ڈالر سرمایہ کاری کی بازگشت سننے میں آئی ۔

نواز شریف حکومت کی اُکھاڑ پچھاڑ پر ایک ہمہ گیر سیاسی بحران نے جنم لینا تھا ۔ امریکہ کی طاقت پاکستان کے سیاسی بحرانوں میں پنہاں ہے۔ سیاسی بحران کی کوکھ سے اقتصادی بحران اور دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہر گز حیرت نہیں ہوئی جب عمران خان کے وزیر تجارت رزاق داؤد نے پلک جھپکتے بیان دے ڈالا کہ ’’سی پیک کو دو سال کیلئے بند کیا جا رہا ہے‘‘، یہی امریکہ چاہتا تھا۔ اس سے پہلے سی پیک منصوبوں کیخلاف میڈیا پر اور تقریروں میں عمران خان اور دوسرے در پردہ امریکی ایجنٹ اس کیخلاف معاندانہ پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ سی پیک میں کرپشن کے بے بنیاد الزامات لگائے۔ 

چینی حکومت کو رُسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ چین کو پاکستان سے دور کرنے کیلئے تن من دھن خرچ ہوئے ۔ سی پیک منصوبوں کا خفیہ رکھنا بھی معاہدے کا حصہ تھا، حکومت قائم ہوتے ہی اسد عمرنے معاہدوں کی تفصیل امریکہ اور IMF کو دے ڈالی۔اچنبھے کی بات نہیں، سیاسی خلفشار کی موجودگی میں عمران خان نے اقتدار سنبھالاتواستقبال میں IMF اور FATF ہی نصیب بننا تھے۔ چین کی پاکستان سے مایوسی بنتی تھی۔ پاکستان سے مایوس ہو کر چین اپنا سرمایہ (جو کھربوں میں ہے) ایران لے گیا ۔ تین سال بعد یعنی مارچ 2021 میں چینی وزیرخارجہ نے اپنے دورہ ایران پر 400 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری کےمنصوبوں پر دستخط کئے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا طنزیہ تبصرہ گھائل کر گیا ’’ایران کسی کے ڈر یا خوشامد میں چین کو کبھی دھوکہ نہیں دے گا ‘‘ ۔

احسن اقبال کو کریڈٹ کہ سی پیک کے دوسرے دور کاآغازانہی کی قیادت میں اُسی کروفر سے ہوا جہاں سے سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ یقیناً دوبارہ شروع کرنے کیلئے سیاسی استحکام کی ضمانت دی گئی ہو گی ۔ خوش آئند بات ،جنرل عاصم منیر ملکی تاریخ کا پہلا آرمی چیف جو امریکی مہرہ بننے کی بجائے چین کیساتھ یکسوئی کیساتھ وابستہ ہوچُکا ہے۔

 یقین ہے، آنیوالے دنوں میں آسان نہیں رہنا۔ امریکہ نے جنرل عاصم منیر کیخلاف ہر انتہا تک جانا ہے۔ چین ایک بار پھر اربوں ڈالر فوری نچھاور کرنے کوہے ۔ پاکستان کا ساتویں آسمان کو سفر گوادرتا کاشغر یا کاشغرسے گوادر ہی ہے۔ پہلی دفعہ حکومت اور عسکری قیادت چین کیساتھ تعلقات پر دلجمعی سے ایک صفحہ پر ہیں۔ان شااللہ! اگلے چند مہینوں میں تمام وطنی سیاسی قضیے حل ہونے کو ہیں۔ اگرچہ دہشتگردی ، قتل و غارت اور پروپیگنڈہ سر اُٹھائے گا یقیناًنبٹ لیا جائے گا۔ آنیوالے چندمہینوں میں ہرچند امریکی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا ۔ اِن شااللہ پاکستان استحکام خوشحالی اور امن کا گہوارہ بن کر رہے گا ، اگر ایساہوا تو فتح چین کی ہو گی ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔