حکومت چلی گئی، حکومت آگئی

کل اسمبلیاں تحلیل ہو چُکیں، الیکشن کمیشن نے بمطابق آئین 90روز میں انتخابات کروانے ہیں۔جبکہ الیکشن کا انعقاد فروری سے پہلے نا ممکن ہے، اگلے چند دنوں میں نگران سیٹ اَپ مرکزمع سندھ و بلوچستان مقرر ہو جائیگا ۔

 پچھلے دو ہفتوں میں جس تَندہی سے قانون سازی ہوئی ، مقصد ایک ہی، 6/7 ماہ کے نگران سیٹ اَپ کا بندوبست ہو سکے ، آخری خبریں آنے تک اگلے وزیر اعظم کے نام کے لیے قیاس آرائیاں زور و شور سے جاری ضرور ، سُن گُن رکھنے والے اور میڈیا پنڈت حتمی نام کاتعین کرنے میں قاصر ہیں۔

 جتنے نام سامنے ، کھاتہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات پر مبنی،اپوزیشن لیڈر کاکھاتہ خالی ہے ۔ پچھلے 6 ہفتوں سے موثر حلقوں کیطرف سے کچھ نام میڈیا کو فیڈ کیے گئے۔بحث و تمحیص، خوبیاں خامیاں زیرِ بحث رہیں۔ بلحاظ آئین وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیراعظم کا حتمی نام آنا ہے ۔ ازراہِ تفنن، راجہ ریاض کے حوالے سے کوئی نام سامنے نہیں آیا۔

نقارخانہ میں طُوطی کی آواز بھی’’نگران وزیراعظم وہی جو نام راجہ ریاض دے گا۔ اصل فریق کی نمائندگی کر رہے ہیں‘‘۔ نگران وزیراعظم پر اسٹیبلشمنٹ سے حکومت کی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو پا رہی۔ علمِ ریاضی کے رہنما اُصول بتاتے ہیں کہ نگران سیٹ اَپ، الیکشن کمیشن و نیب سربراہان کی تقرری عملاً اسٹیبلشمنٹ کی اُمنگوں کے عین مطابق رہی ہے۔ ہمیشہ جو تعیناتی بھی اسٹیبلشمنٹ کی تابع فرمان رہتی ہے ۔ 

نگران سیٹ اَپ نے تو بے رنگ ،بے بو ،بے ذائقہ رہنا ہے،اقتدارسو فیصد اسٹیبلشمنٹ کو منتقل ہو جانا ہے۔ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک ترجیح ، نگران وزیراعظم امریکہ اور IMF کو بھی جچ جائے ۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کیطرف آنے والے ممکنہ ناموں میں حفیظ شیخ ، رضا باقر ، محمد میاں سومرو میں مشترک عناصر کہ ماہرِ اقتصادیات بھی اور امریکہ کے منظور نظر بھی ہیں۔ پہلے اسحاق ڈار بعد ازاں شاہد خاقان عباسی اور فواد حسن فواد کے نام شایدنواز زرداری میٹنگز میں فائنل ہوئے۔ چند دن پہلے جلیل عباس جیلانی کا نام بھی آ چُکاکہ اسٹیبلشمنٹ کو کسی ایک پر مطمئن کیا جا سکے۔

قوی امکان اسٹیبلشمنٹ کے نام کو ہی کامیابی ملنی ہے۔ اس دفعہ نگران سیٹ اَپ زیادہ شد ومد سے اس لیے زیرِ بحث کہ لمبے دورانیے کیلئے ہے، الیکشن کا انعقاد یا التواء عمران خان کی قسمت سے جُڑا ہے۔ اگر عمران خان کا مکو 3/4 مہینے میں ٹھپ دیا گیا تو6 ماہ بعد الیکشن ہو جائیں گے۔ بالفرضِ محال عمران اپنی مضبوط سیاست کیساتھ عملاً یا روحانی طور پر موثر رہے تو غیر معینہ مدت کیلئے الیکشن کا التواء یا مارشل لاء یا ایمرجنسی کا نفاذ ممکن رہنا ہے۔

 اسٹیبلشمنٹ عمران کا خاتمہ بالخیر کرنے میں عدالتی رکاوٹوں کو ٹاپنے کیلئے ہر حد عبور کرلے گی ۔ PCOجیسے قوانین بھی دُہرائے جا سکتے ہیں ۔ نگران سیٹ اَپ جو عملاً کٹھ پُتلی رہے گا ۔ عمران حکومت ، شہباز حکومت اورنگران سیٹ اَپ میں ایک قدر مشترک ، اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہاہے ۔ حکومت چلی گئی ، حکومت آ گئی، کوئی فرق نہیں پڑنے کو ہے۔

جنرل باجوہ کا کریڈٹ کہ نواز اور عمران حکومت کاخاتمہ کیا ، ملک کو شدید سیاسی اقتصادی بحران میں دھکیلا۔29 نومبر کے بعد عسکری کمان ایسے ایک شخص کے ہاتھ میں جس پر کسی سیاسی حکومت کا خون نہیں۔جنرل باجوہ نے پہلے نواز شریف کودھونس دھاندلی سے ختم کیاپھر عمران خان کی حکومت کوخاص اجزائے ترکیبی سے وزیراعظم بنوایا،کم و بیش اُسی نسخہ کیمیا سے عمران خان کو ہٹایا۔جس طریقہ سے عمران خان کو منتخب کروایا گیا اُسی طرز پر شہباز شریف کو مسندِ اقتدار سونپی۔ جنرل عاصم منیر نے نہ تو کسی’’ سیاست نہیں ریاست بچاؤ ، پانامہ اقامہ ، RTS جیسے گھناؤنے عمل کو آزمایا اور نہ ہی کسی سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کا حصہ بنے‘‘۔ جنرل عاصم منیر کی بد قسمتی کہ عمران خان اینڈ پارٹی نے اُنکے خلاف معاندانہ مہم اُنکی تعیناتی سے 3ماہ پہلے بغیر کسی عقلی دلیل کے شروع کر دی۔ 9مئی کے دن کراچی تاخیبر فوجی تنصیبات ، علامات پر حملہ بنیادی طور پر جنرل عاصم منیر پر حملہ تھا ۔ آج اگر عمران خان کے کیسز چل رہے ہیں تو بظاہر آج کی اسٹیبلشمنٹ کا رول اتنا کہ عمران خان کو قرار واقعی سزا دلوانااولین ترجیح کہ عمران نے یہ چیلنج خود دیا ہے ۔

جنرل عاصم منیر اپنے پیشر و سربراہان سےمختلف ہیں ۔ ایوب خان سے جنرل باجوہ تک جہاں بیشتر امریکہ کےدستِ نگر رہے وہاں جنرل عاصم منیر دفاعی اور سیاسی معاملات میں امریکہ سے ہٹ کر چین سے وابستگی اپنا چُکے ہیں۔ پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے میں چین کا کردار سب پر عیاں ہے ، البتہ آنیوالے دنوں میں اربوں ڈالرزکی بارش کیلئے مستحکم سیاسی نظام کی شرط لَف ہے ۔ جنرل عاصم منیر کے پاس بھی اقتصادی بحالی کا اپنا ایک روڈ میپ ہے، اُسکے مطابق عمرانی سیاست کا خاتمہ بالخیرضروری ہے۔ اگلے 5 سال کیلئے مضبوط سیاسی جمہوری حکومت کا قیام اٹل کہ سی پیک منصوبہ ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کی بھینٹ نہ چڑھ جائے ۔

اگلے 6/8ماہ انتہائی غیر یقینی کے، اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان دنگل مرکزِ نگاہ رہنا ہے ، پاکستان دُشمن نے بذریعہ میڈیا اور دیگر ذرائع عمران کو مدد فراہم کرنا ہے۔ میں اس فقہ سے جویہ بات تسلیم کرتا ہے، کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں امریکی دلچسپی ملوث تھی، عملاً شاید امریکہ کا کردار نہ ملے۔ تحریک عدم اعتماد میں اتحادیوں کی سہولت واپس لیکر شہباز شریف کو منتقل کرنا اسٹیبلشمنٹ کیلئےبائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

دوسری طرف نواز شریف حکومت کو ختم کرنے کیلئے امریکی کردار سے انکار ممکن نہیں ۔ جب نواز شریف کیخلاف 10 والیم منظر عام پر آئے تو بلا حیل وحجت اپنے کالموں میں لکھا ہماری ایجنسیوں نے امریکی CIA کیساتھ ملکر مرتب کیے ہیں۔ CIA کی مدد کے بغیر متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب سے معلومات لینا نا ممکن تھا ۔ نواز شریف کو ہٹانے میں امریکی تڑپ جائز تھی کہ سی پیک منصوبہ امریکی مفادات پر ایک کاری ضرب تھا۔

نواز شریف کو تین دفعہ اقتدار سے زبردستی باہر کیا گیا، کسی موقع پر ریاستی راز یا خفیہ دستاویزات سے نہیں کھیلا گیا۔ عمران خان کو اقتدار سے نکلنے کی بھنک پڑی تو بطور وزیر اعظم نہ صرف معیشت کیلئے بارودی سُرنگیں بچھائیں، خفیہ دستاویزات کو افشاء کرنے بلکہ کھیلنے میں نہ ہچکچایا۔ کل جب ہماری خفیہ دستاویزات عالمی میڈیا کی زینت بنیں توعمران پر افسوس سے زیادہ ترس آیا کہ ذاتی مفادات اور سیاست چمکانے کیلئے موصوف ’’چہ ارزاں فروختند‘‘۔ یقین جانیے، عمران کی سیاست ختم نہیں ہو گی۔

 البتہ اگلے 8/10 سال سیاست میں کوئی گنجائش نہیں۔ 8/10سال کے بعد اگر واپسی ہوئی تو بینظیر اور نواز شریف کیطرح اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر ہی ہو سکے گی کہ عمران کے پاس اسکے علاوہ چوائس ہی نہیں ہو گی۔ آنے والے چھ ماہ ہنگام سے بھرپور ہیں،تاہم پاکستان کی قسمت اور سمت کا تعین کر جائیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔