14 اگست ، 2023
یوم آزادی پر بہت شور شرابہ ہوتا ہے۔ ملی نغموں کی بھرمار ہوتی ہے۔ گھروں کی چھتوں، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر قومی پرچم لہرائے جاتےہیں، اخبارات میں تحریک پاکستان کے زمانے کے ایک نعرے ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالٰہ الا اللّٰہ‘‘ کا ذکربھی آتا ہےلیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ آزادی کا مطلب کیا ہے؟ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ 14اگست کو اتنے جوش و خروش سے یوم آزادی منانے والی قوم کتنی آزاد ہے؟
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 25 اگست 1947ء کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا مقصد ہر شہری کو ناصرف ہر قسم کی محتاجی اور خوف سے نجات دلانا ہے بلکہ اسے آزادی، اخوت اور مساوات کی نعمتیں بھی مہیا کرنا ہے جس کی تلقین ہمیں اسلام کرتا ہے‘‘۔ قائد اعظمؒ نے ہمیں آزادی اور بے لگامی میں فرق بھی سمجھایا۔
24 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ’’آزادی کا مطلب بے لگامی نہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ دیگر شہریوں اور ملک کے مفاد کو نظر انداز کرکے جو طرز عمل چاہیں اختیار کرلیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ایک متحد اور منظم قوم کی طرح کام کریں‘‘۔ میں جب بھی قائد اعظمؒ کی تقاریر اور انٹرویو زپڑھتا ہوں تو مجھے آج کا پاکستان بابائے قوم کے افکار کی ضد نظر آتا ہے۔ قائد اعظمؒ نہ تو کوئی جاگیردار تھے اور نہ ہی بہت بڑے سرمایہ دار تھے۔ انہوں نے اپنی وکالت سے پیسہ کمایا اور سیاست پر لگایا۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ ایک سیلف میڈ انسان تھےجسے برطانوی سرکار نےبھی خریدنے کی کوشش کی اور کانگریس نےبھی بہت ورغلایا۔
1940ء میں راج گوپال اچاری نے قائد اعظمؒ کو متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔ 1947ء میں مہاتماگاندھی نے دوبارہ انہیں متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی لیکن قائد اعظمؒ نے یہ پیشکش دوبارہ مسترد کردی۔ ان کی سامراج دشمنی کا یہ عالم تھا کہ قانون ساز اسمبلی میں بھگت سنگھ کے حق میں تقریر کردی۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں 15 اگست کوآزاد ہوئے لیکن قائد اعظمؒ نے پاکستان کا یوم آزادی 14اگست قرار دیا کیونکہ 15 اگست دوسری جنگ عظیم میں اتحادی فوج کی جاپان پرفتح کا دن تھا۔ اتحادی فوج نے 6 اگست کو ہیروشیما اور 9اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا جس کےبعد 15 اگست 1945ء کو جاپان نےسرنڈر کردیا۔
مائونٹ بیٹن اتحادی فوج کا کمانڈر تھا جس کے سامنے جاپانیوں نے سنگاپور میں ہتھیار ڈالے اور اسی دن اتحادی فوج نے کوریا سے واپسی کا اعلان کیا۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کا یوم آزادی بھی 15 اگست ہے لیکن قائد اعظمؒ نے اپنے یوم آزادی کو سامراجی طاقتوں کی فتح کے دن سے جوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ افسوس کہ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد پاکستان پر جاگیردار طبقے نے قبضہ کرلیا۔ یہ جاگیردار فوجی ڈکٹیٹروں کے خوشامدی بن گئے۔ فوجی ڈکٹیٹر انہی سامراجی طاقتوں کے گماشتے تھے جن سے قائد اعظمؒ نے ہمیں آزادی دلائی۔ اس گماشتہ اشرافیہ نے پاکستان کی نئی نسل کویہ بتانامناسب نہیں سمجھا کہ 9جولائی 1948ءکو حکومت پاکستان نے جو ڈاک ٹکٹ جاری کئے اس پر یوم آزادی 15اگست درج تھا لیکن پھر قائد اعظمؒ نے 14اگست کو یوم آزادی کیوں قرار دیا؟ 14 اگست کو ہر طرف قومی پرچموں کی بہار نظر آتی ہے لیکن یہ پرچم لہرانے والے اکثر پاکستانی بھی قومی پرچم کے رنگوں اور چاند ستارےکا مطلب نہیں جانتے۔
سیدانور قدوائی نے اپنی کتاب ’’قومی پرچم کی کہانی‘‘ میں سبز ہلالی پرچم کا تحریک خلاف سے تعلق تلاش کیا ہے۔ ان کے والد سید امیر الدین قدوائی نے میر غلام بھیک نیرنگ اور علامہ راغب احسن کے ساتھ مل کر پاکستان کا پرچم تیار کیا جس کی منظوری قائد اعظمؒ نے دی۔ اس پرچم میں چاند اور ستارے کا تعلق ترکی کے پرچم میں موجود چاند اورستارے سے تھا لیکن ترکی کا پرچم سرخ اور پاکستان کا پرچم سبز ہے۔ آپ کو یہ چاند اور ستارہ پاکستان اور ترکی کے علاوہ الجزائر، آذربائیجان، لیبیا، ملائشیا، مالدیپ، موریطانیہ، ترکمانستان اور ازبکستان سمیت کئی مسلم ممالک کے پرچم میں نظر آتا ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاکستان کے پرچم میں خاص طور پر سفید رنگ بھی شامل کیا گیا جو امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
14اگست کو اس سبز ہلالی پرچم کو لہرانے اور اسے سلیوٹ مارنے سے آزادی کا تحفظ نہیں ہوتا۔ آزادی کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب آپ آزادی کامطلب سمجھیں گے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری کو وہ حقوق دیئے جائیں جن کا وعدہ آئین ِپاکستان میںکیا گیا ہے۔ پاکستان کا موجودہ آئین 14اگست 1973ء کو نافذ ہوا۔ اس آئین پرکلین شیو مسلمانوں سے لے کر باریش مسلمانوں تک ہر مکتبہ فکر کے رہنمائوں نےدستخط کئے۔ حکومت نے بھی دستخط کئے اور اپوزیشن نےبھی دستخط کئے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور خان عبدالولی خان کلین شیو تھے۔ مولانا مفتی محمود، مولاناغلام غوث ہزاروی، مولانا عبدالحق، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی، محمود اعظم فاروقی،پروفیسر غفور احمد اور ظفر احمد انصاری جیسے علما کے علاوہ بشیر مسیح اور پی کے شاہانی جیسے غیر مسلموں نےبھی اس آئین پر دستخط کئے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی اور جینیفر جہاں زیب قاضی موسیٰ جیسی پڑھی لکھی خواتین نےبھی اس آئین پر دستخط کئے۔ یہ آئین غیر مسلموں اور خواتین کے علاوہ صحافیوں کے حقوق کا محافظ ہے۔
14اگست 2023ء کو اس آئین کے پچاس سال پورے ہوگئے۔ اس آئین کا تحفظ دراصل پاکستان کی آزادی کا تحفظ ہے۔ جو اس آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مشکوک ہے۔ اس آئین کے مطابق آزادی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے شہری اپنے ووٹ کا حق اپنی مرضی سےاستعمال کرسکیں۔ کوئی ان کا ووٹ چوری نہ کرے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہو۔
مقدمے صرف سیاستدانوں اور صحافیوں پر نہیں بلکہ ان پر بھی چلائے جائیں جنہوں نے آئین کی دفعہ 244 کے تحت سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا حلف لیا لیکن وہ کھلم کھلا سیاست میں مداخلت کرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ فوج کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی سیاست سے دور رہے۔ جج صاحبان کے بارے میں یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آئین کی بجائے ایک مخصوص سیاسی جماعت کے وفا دار ہیں۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اہل فکر اور اہل صحافت کی وفاداری کسی ایک پارٹی یا گروہ سے نہیں بلکہ صرف حقیقت سے ہو۔ انہیں جہاں جو حقیقت نظر آئے اس کی نشاندہی کردیں۔ آزادی اظہار کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ اہل صحافت کسی ایک پارٹی کے ترجمان بن کر دوسری پارٹی پر حملہ آور ہوجائیں۔
آئین میں ہر ادارے کا کردار متعین کیا گیا ہے۔ اداروں کو آئین میں طے کردہ کردار تک محدود رہنا چاہیے۔ جو ادارہ اپنے دائرے سے باہر نکلے گا وہ پاکستان کی قومی آزادی کے لئے خطرہ بنے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، جس ریاست میں خفیہ ادارے بغیر مقدمے کے اپنے ہی شہریوں کو اغوا کرتے ہیں اور انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کرتے وہ ریاست ہٹلر،سٹالن اور مودی کی ریاست تو ہو سکتی ہے لیکن قائد اعظمؒ کی ریاست نہیں ہوسکتی۔ یوم آزادی پر قائد اعظمؒ کے پاکستان سے محبت کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ آپ آئین پاکستان کا کتنا احترام کرتے ہیں؟ اگر آپ قائد اعظمؒ کی تعلیمات کی روشنی میں آئین کا احترام کرتے ہیں تو آپ پاکستان کی آزادی کا تحفظ کر رہے ہیں۔اگر آپ کسی بھی جواز کی آڑ لے کر آئین پر عملدرآمد نہیں کر رہے تو آپ پاکستان کی آزادی کے لئے خطرہ ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔