24 اگست ، 2023
بجلی سے حفاظت ایک اہم مسئلہ ہے، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے اس مسئلے پر قابو پانا ضروری ہے، مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی، کمزور انفرا اسٹرکچر اور درست لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔
کراچی میں مون سون کے موسم میں ہونے میں والے حادثات شہر کی انتظامیہ اور کے۔ الیکٹرک کو چوکنا رکھتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات کرنا ہر شہری کی برابر کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات کی آگہی پھیلانی چاہیے کہ 2 کروڑ 3 لاکھ سے زائد کی آبادی والے شہر قائد کو کس طرح محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
یہ مضمون ان اقدامات کا احاطہ کرتا ہے جو گھریلو اور بڑے پیمانے پر کمیونٹیز کی سطح پر کیے جا سکتے ہیں۔ اس مضمون میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے، پیشگی احتیاطی تدابیر اور فوری ردعمل کے حوالے سے معلومات ہیں۔
گھر میں برقی نظاموں کی باقاعدگی سے مرمت، ان کی جانچ پڑتال اور انہیں اپ گریڈ کرنا ضروری ہے لیکن حفاظت کے رہنما اصولوں سے خاندان کے ہر فرد کا واقف ہونا بھی ضروری ہے۔
بین الاقوامی سطح پر محفوظ جگہ کا تصور وسیع معنی رکھتا ہے لیکن کراچی جیسے شہر کے لیے بجلی کے تاروں کو صحیح طریقے سے لگانا، ڈھکے ہوئے ساکٹ اور بھاری برقی آلات جیسے پانی کی موٹرز، جنریٹرز وغیرہ کو مناسب جگہ پر رکھنا حفاظت کے حوالے سے ضروری ہیں۔
قریبی اسپتالوں، ایمبولینس سروس اور فائر ہائیڈرنٹ کا رابطہ نمبر خاندان کے ہر فرد کے پاس ہونا چاہیے۔
محفوظ ماحول پیدا کرنے کے لیے چند بنیادی نکات:
مکمل طور پر کورڈ بجلی کے ساکٹ:
عادت کے مطابق بچے اپنی انگلیوں یا دھاتی چیزوں،جیسے کانٹے اور چمچوں کو دیوار کے ساکٹ اور ایکسٹینشن پلیٹوں سے لگاتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام ساکٹ اور ایکسٹینشن مکمل طور پر کورڈ اور مناسب جگہ پر ہوں۔
فرش پر پھیلے بجلی کے تار:
بجلی کے تاروں کو فرش پر پھیلا ہوا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس طرح کی تاروں سے نہ صرف ٹرپنگ کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ چھوٹے بچے ان تاروں سے الجھ کر گر سکتے ہیں، جس سے ان کے زخمی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
برقی آلات کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں:
ٹوسٹرز، استری، کرلنگ راڈز اور دیگر برقی آلات جو نقصان کا باعث بن سکتے ہیں، بچوں کی پہنچ سے دور محفوظ جگہ پر رکھنا چاہیے۔ اگرچہ کسی آلے کا استعمال نہ ہونے پر اُسے بند کر دینا بجلی کی بچت کے حوالے سے اچھی عادت ہے لیکن ایسے گھروں میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے جس میں چھوٹے بچے ہوں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
ننگے تاروں پر فوری توجہ کی ضرورت ہے:
اگر آپ کے پاس کوئی تار یا بجلی کا کنکشن ہے، جس میں بجلی رواں نہ ہو، تب بھی ان سے احتیاط برتنا ضروری ہے، کیوں بچے ہوں یا بڑے، ننگی تاریں سب کے لیے خطرناک ہیں۔
بجلی کے میٹروں کے ارد گرد حفاظتی خطرات:
اگر آپ کو اپنے میٹر سے منسلک کوئی حفاظتی خطرہ یا خرابی نظر آئے، تو آپ کے۔ الیکٹرک کی ہیلپ لائن 118 پر فون کرکے فوری طور پر اپنی شکایت درج کرائیں، تاکہ متعلقہ ٹیم حفاظتی چیکنگ کرکے تکنیکی مسائل کو دور کرسکیں۔
حادثات سے بچنے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا گھرانوں کے لیے سکون کا باعث ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ ریاست، تعلیمی اداروں،اسپتالوں اور این جی اوز کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی بیداری پیدا کریں اور عام لوگوں کے ساتھ مفید معلومات کا اشتراک کریں۔
ہنگامی صورت حال میں یہ بنیادی ایکشن پلان ہونا چاہیے:
حادثے کی وجہ کا پتہ کریں:
ابتدائی طور پر آپ کو واقعے کی وجہ کا پتہ ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کسی گرم آلے کی وجہ سے جلا ہے یا ننگے بجلی تار کی وجہ سے اُسے برقی جھٹکا لگا ہے۔
بنیادی امداد فراہم کریں:
جلنے کی صورت میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ اچانک پیش آنے والے اس صدمے سے وہ شخص باہر آئے تاکہ گھر پر ابتدائی علاج میں آسانی ہو۔
فوری طور پر اسپتال لے کر جائیں:
متاثرہ شخص کو فوری طورپر قریبی اسپتال لے کر جائیں جہاں اس کا مناسب علاج کیا جاسکے۔
اگر آس پاس کوئی اسپتال نہیں ہے تو ایمبولینس کو کال کریں:
صورتحال اگر سنگین نظر آتی ہے اور قریب میں کوئی اسپتال نہ ہو، تو بہتر ہے کہ فوری طور پر جان بچانے والی ایمبولینس کو کال کریں، جیسے کہ سندھ ایمرجنسی ریسکیو سروس 1122، چھیپا ایمبولینس یا جے ڈی سی ایمبولینس سروس، جو شہریوں کو امداد اور ریلیف فراہم کرنے کے لیے 24/7کام کرتی ہے۔
نوٹ: فیملی ڈاکٹروں اور قریبی کلینکس کے رابطہ نمبر ریفریجریٹر یا باآسانی نظر آنے والی کسی دوسری جگہ پر لگانا چاہیے، جس سے خاندان کے افراد واقف ہوں اور ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے فون کرسکیں۔