برمودا ٹرائی اینگل کا نام کیسے رکھا گیا اور یہ کب پراسرار ترین خطہ بنا؟

اسے دنیا کا پراسرار ترین خطہ مانا جاتا ہے / فوٹو بشکریہ pressat
اسے دنیا کا پراسرار ترین خطہ مانا جاتا ہے / فوٹو بشکریہ pressat

لگ بھگ 80 سال قبل امریکی بحریہ کے 5 طیاروں نے فلوریڈا بیس سے معمول کی تربیتی مشق کے لیے اڑان بھری۔

اس تربیتی مشن کو فلائٹ 19 کا نام دیا گیا تھا، مگر وہ طیارے اور ان پر موجود عملہ پھر کبھی نظر نہیں آیا۔

اس طرح برمودا ٹرائی اینگل یا تکون کا اسرار وجود میں آیا۔

یہ تکون میامی، برمودا اور پورٹو ریکو کے سمندری حصے پر مشتمل ہے اور کوئی واضح اعداد و شمار تو موجود نہیں مگر گزشتہ صدی کے دوران اس مقام پر متعدد بحری جہاز اور طیارے بغیر کسی سراغ کے غائب ہوئے۔

ماضی میں بھی اس خطے کے حوالے سے کہانیاں موجود ہیں، جیسے کرسٹوفر کولمبس نے اس علاقے میں کمپاس کے ساتھ ہونے والی عجیب تبدیلیوں کو تحریر کیا۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس خطے کا نام برمودا ٹرائی اینگل کب رکھا گیا اور کب وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا؟

نیشنل جیو گرافک نےکچھ عرصے قبل اس حوالے سے ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق اس کے لیے زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں درحقیقت برمودا ٹرائی اینگل کے نام کو 60 سال بھی نہیں ہوئے۔

اس تکون کو برمودا ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے / فوٹو بشکریہ ہسٹری ڈاٹ کام
اس تکون کو برمودا ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے / فوٹو بشکریہ ہسٹری ڈاٹ کام

اس خطے کا یہ نام اگست 1964 میں اس وقت معروف ہوا جب Vincent Gaddis نے Argosy نامی میگزین کے لیے فلائٹ 19 کی گمشدگی پر ایک اسٹوری تحریر کرتے ہوئے برمودا ٹرائی اینگل کی اصطلاح استعمال کی۔

اس مضمون کے بعد یہ خطہ دنیا بھر میں پراسرار کہانیوں کو وجود دینے لگا۔

ایسی متعدد تھیوریز موجود ہیں جن سے بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کی ممکنہ وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگر عام افواہوں کی بات کی جائے تو بہت بڑے سمندری عفریت، خلائی مخلوق اور ایسے ہی متعدد عجیب خیالات کو برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

مگر متعدد حلقوں کے خیال میں ممکنہ حقیقت زیادہ دلچسپ نہیں۔

ان حلقوں کے مطابق قدرت کی طاقت، انسانی غلطیاں، ڈیزائن میں خامیاں یا محض بدقسمتی سے متعدد گمشدگیوں کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔

یو ایس نیول Historical فاؤنڈیشن کے تاریخ دان جان ریلے کے مطابق اس خطے میں بہت زیادہ سفر کیا جاتا ہے اور یہ قرون وسطیٰ کے عہد سے بہت مصروف راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کچھ بحری جہازوں اور طیاروں کا غائب ہونا کچھ اسی طرح ہے جیسے ہم کہیں کہ نیو جرسی کی شاہراؤں پر گاڑیوں کے حادثات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔

یو ایس کوسٹ گارڈ کے لیفٹننٹ اے ایل رسل نے اس حوالے سے آفیشل ردعمل میں لکھا کہ 'ہمارا تجربہ ہے کہ قدرت اور انسانوں کے ناقابل پیشگوئی رویے ہر سال متعدد سائنس فکشن کہانیوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں'۔

فلائٹ 19 مشن کی گمشدگی

5 ٹی بی ایم ایوینجر تارپیڈو بمبار طیاروں کی 1942 کی ایک تصویر / فوٹو بشکریہ نیشنل آرکائیوز
5 ٹی بی ایم ایوینجر تارپیڈو بمبار طیاروں کی 1942 کی ایک تصویر / فوٹو بشکریہ نیشنل آرکائیوز 

رپورٹ کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کو ہمیشہ 5 دسمبر 1945 کو پرواز کرنے والے فلائٹ 19 مشن سے منسلک کیا جائے گا۔

یہ مشن فلوریڈا کے علاقے Fort Lauderdale میں واقع یو ایس نیول ائیر اسٹیشن سے روانہ ہوا۔

5 ٹی بی ایم ایوینجر تارپیڈو بمبار طیارے 14 افراد کے ہمراہ دوپہر 2 بجے معمول کے تربیتی نیوی گیشن مشن پر روانہ ہوئے۔

لیفٹننٹ چارلس ٹیلر ٹرائی اینگولر روٹ پر ہونے والے مشن کی سربراہی کر رہے تھے جس کے دوران بمباری کی مشق بھی کی جانی تھی۔

یہ وہ عہد تھا جب نیوی گیشن کے لیے جی پی ایس کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا اور پائلٹوں کو کمپاس اور کسی مخصوص سمت پر کب تک پرواز کرنے جیسی معلومات پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔

بمباری کی مشق کے تھوڑی بعد چارلس ٹیلر کے طیارے کے دونوں کمپاس بظاہر خراب ہوگئے اور اس موقع پر ان فلائٹ کمیونیکیشنز سے عندیہ ملتا ہے کہ انہوں نے کوئی گھڑی نہیں پہنی ہوئی تھی جبکہ کھلے سمندر میں کوئی نشانی بھی نہیں تھی۔

یہ طیارے پریشانی میں ایک سے دوسری جانب پرواز کیے جا رہے تھے کیونکہ سمندر اچانک بپھر گیا تھا اور دن کی روشنی کی جگہ تاریکی چھا گئی تھی۔

چارلس ٹیلر کو ایک منصوبہ بیان کرتے سنا گیا تھا جس کے تحت کسی طیارے کا ایندھن کم ہونے پر تمام طیاروں کو سمندر میں اتر جانا تھا۔

ایوینجر طیارے بہت مضبوط مانے جاتے تھے اور انہیں کسی ٹینک کی طرح تیار کیا جاتا تھا جو جنگوں میں نشانہ بننے پر بھی کام کرتے رہتے تھے۔

وہ بہت زیادہ وزنی بھی ہوتے تھے اور ہر طیارے کا وزن 4535 کلو گرام ہوتا تھا تو وہ سمندر میں بہت تیزی سے ڈوب سکتے تھے اور اس پر سوار افراد کے بچنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا، جبکہ ملبہ سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتا۔

ایسا ہی کچھ فلائٹ 5 مشن کے ساتھ بھی ہوا کیونکہ بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کے باوجود لاشیں یا ملبہ کبھی دریافت نہیں ہوسکا۔

اس آپریشن کے دوران ایک امدادی طیارہ بھی 13 افراد کے عملے کے ساتھ غائب ہوگیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دھماکے سے تباہ ہوا، جس سے اس خطے سے جڑا اسرار مزید بڑھ گیا۔

امریکی بحریہ کی حتمی رپورٹ میں فلائٹ 19 مشن کی گمشدگی کو پائلٹ کی غلطی قرار دیا گیا تھا، جس پر چارلس ٹیلر کے خاندان نے احتجاج کیا اور رپورٹ پر متعدد بار نظرثانی کرنے کے بعد گمشدگی کی وجوہات کو نامعلوم قرار دے دیا گیا۔

چند مزید دلچسپ حقائق

یہ خطہ غیر معمولی ہے / فوٹو بشکریہ بی بی سی سلیکٹ
یہ خطہ غیر معمولی ہے / فوٹو بشکریہ بی بی سی سلیکٹ

برمودا ٹرائی اینگل کا خطہ غیر معمولی ہے۔

یہ ہمارے سیارے کے محض 2 ایسے مقامات میں سے ایک ہے جہاں شمالی اور جنوبی مقناطیسی قطب آپس میں ملتے ہیں اور اس کے باعث کمپاس متاثر ہوتے ہیں۔

دوسرا خطہ جاپان کا مشرقی ساحلی حصہ ہے جسے ڈیولز سی بھی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح دنیا کی چند گہری ترین زیرآب کھائیاں یہاں موجود ہیں اور طیاروں یا بحری جہازوں کا ملبہ سمندر کی سطح سے میلوں نیچے کہیں غائب ہو سکتا ہے۔

برمودا ٹرائی اینگل کے خطے کے جنوبی جانب سمندر کی تہہ 19 ہزار فٹ کی گہرائی میں ہے جبکہ پورٹو ریکو میں ایک جگہ یہ گہرائی 27 ہزار 500 فٹ ہے۔

مونگے کی چٹانیں اور براعظمی پلیٹوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے پانی میں بحری رو مضبوط ہے جس سے نیوی گیشن مسائل بڑھتے ہیں۔

پھر یہاں کا موسم بھی پل پل مزاج بدلنے والا ہے۔

امریکا کے Marine Prediction Center کے ماہر ڈیو فیٹ کے مطابق اس خطے میں بحری رو یا کرنٹ موسم پر اثر انداز ہونے والا عنصر ہے۔

ان کے مطابق یہاں کی بحری رو 46 سے 50 میل چوڑی ہے، یعنی سمندر کے اندر ایک دریا کی طرح گردش کرتی ہے جس کے باعث اونچی لہریں عام ہیں۔

مگر ان تمام عوامل کے باوجود برمودا ٹرائی اینگل کو دنیا کا پراسرار ترین مقام تصور کیا جاتا ہے۔

مزید خبریں :