03 ستمبر ، 2023
’’ہاتھ ہو گیا‘‘ کی دُہائی میں مہنگائی کا جن آپے سے باہر اور ہر طرف سے بجلی گیس تیل کے بلوں اوراشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی دہائی ہے ، اس پر کوئی کان دھرنے والا نہیں ۔ جانے کس نے کس کس کے ساتھ کیاہاتھ کیا یا پھر کس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا؟ لگتا پر یہ ہے کہ ہر کسی نے ہر کسی کے ساتھ ہاتھ کیا، یوں سب کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ کوئی پہلے سے ہاتھ مل رہا تھا، کوئی اب مل رہا ہے اور مستفیضین میں سب سے مستفیض ن لیگ والے بھی بالآخر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
یوں کہیے کہ سارے سیاسی و ریاستی کرداروں کے ہاتھوں کے طوطےآخر کار اُڑ گئے ہیں۔ اس بوکھلاہٹ میں جانے بی بی جمہوریت کی سیٹی کہیں گم ہو کے رہ گئی ہے، جس کا کہ کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ایسےمیں بھارت کے چندریان-3 کی چاند کے جنوبی تاریک قطب میں کامیاب لینڈنگ پر جہاں دُنیا بھر میں تعریف کے ڈونگرےبرسائے جا رہے تھے تو پوری قوم کی سانسیں بٹگرام میں الائی کے مقام پر اٹکی ہوئی چیئرلفٹ میں پھنسے آٹھ بچوں کی موت و زندگی کی کشمکش سے پُھولی ہوئی تھیں۔ جہاں ہیلی کاپٹرز کام نہ آئے، وہاں نوجوانوں کی جرات اور مقامی حرفتی نسخوں نےکام کر دکھایا۔
ہر دو واقعات برصغیر کے ایک ہی وقت پر آزاد ہونے والے دو ملکوں کے حالات کی غمازی کرتےہیں۔ ہمیں ہر جدید ہتھیار و اوزار اور مانگے تانگے کی دست نگر معیشت سرد جنگ کے طفیل خیرات میں ملی تو بھارت نےخودانحصاری، میڈ اِن انڈیا اور اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ مین پاور، اینٹرپرینیرز، پڑھی لکھی مڈل کلاس اور سپیس ایجنسی کے سائنسدانوں نے کر دکھایا۔ ذرا اس کا پاکستان کے سپارکو کے تحت جسکا کنٹرول اعلیٰ فوجی افسروں کےمضبوط ہاتھوں میں ہے کی ناکامیوں کا موازنہ بھارت کی خلائی ایجنسی سے کریں جس کی کامیابیوں کے پیچھے بھارت کے سائنسدان اور پنڈت جواہر لال نہرو سے نریندرمودی تک تمام وزرائے اعظم کی کاوشیں شامل ہیں۔ جبکہ ہم نے نیوکلیئرپروگرام کے بانی وزراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی اور ایٹمی دھماکہ کرنے والے وزیراعظم نواز شریف کو عمر قید دےدی۔
تو بات شروع ہوئی تھی ’’ہاتھ ہو گیا‘‘سے تو اس میں کسی کو کیا دوش دینا۔ سیاسی جماعتوں اور ریاست کے معززاداروں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا اور جس کا جتنا دوش ہے وہ سرِعام قبول کرنا ہوگا، ورنہ قلب ماہیت ممکن نہیں۔ کیا ملک کے یہ حالات ہیں کہ بحران پہ بحران تھونپا جائے۔ کسی بھی معیشت دان سے پوچھ لیجیے کہ ملکی معیشت کا جو حال ہے وہ آئندہ ایک دہائی میں بھی سنبھلنے والا نہیں۔ جب کہ عوام کا انبوہِ کثیر تنگ آمد بجنگ آمد پہ مجبور ہواجاتا ہے۔ بجلی کے بل موت کا پروانہ بن گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی سرکلر قرضہ ختم ہونے کو نہیں، نہ ہو سکے گا۔ شہروں اورقصبوں میں’’بجلی کا بل دیں یا روٹی کھائیں‘‘ کے نعرے پہ مظاہرے شروع ہو چکے ہیں، دیکھیے عوامی لاوا کب پھٹتا ہے۔قوم کو یہ بھی تو بتایا جائے کہ بجلی چور کون ہیں، کتنے بند کارخانوں کو کیپسٹی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں، ٹیکس نادہندوں کا بوجھ بجلی کے بلوں میں متعدد ٹیکسوں کی صورت کیوں عوام پر لادا جارہا ہے اور بجلی کمپنیوں کے ساتھ یہ معاہدے جس شریف اسپیڈ کے ساتھ کیے گئے تھے، اُن سے بھی تو کوئی حساب کتاب لیا جائے۔
معیشت سنبھل نہیں رہی اور نہ موجودہ سنگین معاشی بحران کا حل آئی ایم ایف کے کِرم خوردہ نسخوں کے پاس ہے۔ویسے اگر آئی ایم ایف کہتا ہے کہ سبسڈی غریبوں کو امیروں کو نہیں تو اس میں کیا غلط ہے۔ اور کسی انقلابی حل کیلئے اُمرااور اُن کے دم چھلے معیشت دان تیار نہیں ہیں۔ جب آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے تو ہر شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے جو ’’ایک کھڑکی‘‘ ’’کل حکومت‘‘نے کھولی ہے وہ مارکیٹ کے ہاتھوں میں نہیں ریاست کے فولادی ہاتھوں میں ہے اور ان فولادی ہاتھوں کی کرم نوازیاں ہم دہائیوں سے دیکھتے چلے آئے ہیں۔ اُنہیں جن کی انگلیاں لبلبی پہ ہیں، کو کوئی قلمکار یاسوجھوان سمجھائے تو کیسے کہ زبان کبھی کی حلقہ زنجیر کی نذر ہو چکی ہے۔
چلیے معیشت تو گئی ہاتھ سے تو اب سیاست کے سارے جمہوری تانے بانے توڑنے پہ کیوں اصرار ہے۔ سویلین چلا نہیں پائے یا انہیں اگر چلنے نہیں دیا گیا توخاکی بھی کتنی ہی بار نظام حکومت چلا کر ملک کو بدترین حادثوں اور تباہ کاریوں سے دوچار کر چکے ہیں۔اب گلہ کیا جائے تو کس سے، شکوہ کیا جائے تو کس سے؟ سیاست ہے کہ متعفن ہو گئی ہے اور ہر کسی کے ہاتھ گند سےبھر گئے ہیں۔ لیکن کوئی فرق پڑنے والا نہیں کہ ریاست کا پرنالہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اب جمہوری پھریرا کون اُٹھائے، سول سوسائٹی کے نازک کندھے ابھی یہ بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ کوئی تو بولے اور کنڈی کھولے!
عمران خان نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر سبھی جماعتوں کے ساتھ ہاتھ کر دیا، جب اُنہوں نے سر پر ہاتھ رکھنے والوں کے ساتھ ہاتھ کرنے کی کوشش کی تو اُن کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ شریف خاندان نے ہاتھ دکھایا تو منہ کی کھانی پڑی، پھرفوج کے ساتھ مل کر عمران خان کو ہاتھ دکھانے کی کوشش کی تو پوری پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ ہو گیا اور اب سب کےہاتھ پاوُں پھولے ہوئے ہیں کہ عوام کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہ گئے۔ کس منہ سے کہتے ہیں کہ ریاست جو بچانی تھی جو کبھی اُن کے ہاتھ میں نہ تھی، جو چھوٹی موٹی سیاست تھی اس کا بھی منہ کالا کروا بیٹھے۔
اب لندن میں بغلیں بجائیں بھی تو کیسے کہ واپسی پر جوتیاں پڑیں گی یا ہار۔خیر سے پیپلز پارٹی کو بھولے بسرے جمہوری اصولوں کی یادآئی بھی تو پانی سر سے گزر چکا ہے۔ عمران خان کے ہائبرڈ رجیم اول کے اندرونی خلفشار سے کچھ حاصل نہ ہو سکا توشہباز شریف کی سمجھوتے کی اسپیڈ پہ اتحادی حکومت اگر وسیع البنیاد ہائبرڈ رجیم دوم بنی بھی تو تمام تر سویلین اوقات اور جمہوری شان گنوا کر۔ اب جب ہائبرڈ رجیم سوم کی تیاری ہے تو نہ نواز شریف کو کوئی واپسی کی تاریخ سوجھ رہی ہے تو ہماری سیاست کے پی ایچ ڈی آصف علی زرداری کی شطرنج کی بساط اُکھڑ کر رہ گئی ہے۔
لے دے کے بچا ہے توتنِ تنہا عمران خان اور اس کی پارٹی کے چند سرپھرے جن کے پاس مستقبل کی سیاست کا کوئی جمہوری و عوامی خاکہ ہے، نہ عوام سے پاسداری کا کوئی عہد نامہ۔ اور منا بھائی نہ چاہتے اور نہ جانتے ہوئے بھی بغیر کسی حکمتِ عملی کے سرٹکرائے جا رہا ہے۔ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں کہ ریاست کا فولادی پرنالہ اپنی جگہ پہ قائم ہے۔ تو پھر جمہوری پھر یرا کون اُٹھائے؟ سول سوسائٹی کے نازک کندھے ابھی یہ بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں۔ جب سب جمہوری پلیٹ فارم کو چھوڑ گئے توکوئی تو بولے اور جمہوری شاہراہ پہ چل نکلنے کی راہ دکھائے۔ یا پھر غضب کا شکار عوام میدان میں اتریں گے تو کوئی نہ ہو گا کہ جو بچا لے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔