03 ستمبر ، 2023
ذیابیطس ایسا دائمی اور سنگین مرض ہے جس کا سامنا ہر 10 میں سے ایک فرد کو ہوتا ہے اور اس کے کیسز کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
زیادہ تر افراد کو ذیابیطس ٹائپ 2 کا سامنا ہوتا ہے جو اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور 90 سے 95 فیصد کیسز میں اس کی تشخیص ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر ذیابیطس ٹائپ 1 اور حاملہ خواتین میں ذیابیطس اس مرض کی دیگر اہم اقسام ہیں۔
ذیابیطس کی تمام اقسام میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ خون میں شکر کی مقدار بڑھ جانا جسے بلڈ شوگر کہا جاتا ہے۔
ہمارا جسم بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے انسولین تیار کرتا ہے۔
لبلبے میں بننے والا یہ ہارمون خون میں موجود گلوکوز خلیات کے اندر داخل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یعنی جب ہم کچھ کھاتے ہیں تو وہ غذا گلوکوز میں تبدیل ہوتی ہے جس کے ردعمل میں لبلبے سے انسولین ہارمون کا اخراج ہوتا ہے جو خلیات کے دروازے کھول کر گلوکوز کو توانائی میں بدلتا ہے۔
ہائی بلڈ شوگر کے ساتھ ساتھ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسم میں بلڈ شوگر کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
ہائی یا لو (low) بلڈ شوگر دونوں سے جسم کو متعدد منفی اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔
ہائی بلڈ شوگر سے جن اثرات کا سامنا ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔
اگر جسم میں بلڈ شوگر کی سطح زیادہ ہو تو گردوں کے لیے خون میں موجود اضافی شکر پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔
بلڈ شوگر کی سطح زیادہ ہونے پر ہمارا جسم اسے پیشاب کے ذریعے خارج کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے باعث بار بار پیشاب آنے لگتا ہے۔
بلڈ شوگر کی سطح بڑھنے پر جسم شکر کو خارج کرنے کے لیے ٹشوز سے پانی کو کھینچتا ہے۔
پانی سے جسمانی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے اور کچرے کو خارج کرنے میں مدد ملتی ہے، مگر جب ٹشوز سے پانی کو کھینچا جاتا ہے تو دماغ ہمیں ہر وقت پیاس لگنے کا سگنل بھیجتا رہتا ہے۔
جیسا اوپر بتایا جا چکا ہے کہ بلڈ شوگر کی سطح بڑھنے پر جسم ٹشوز سے پانی کو کھینچتا ہے جس کے باعث لعاب دہن کم بنتا ہے۔
اس کے باعث منہ خشک ہو جاتا ہے جبکہ مسوڑے سوج جاتے ہیں اور زبان پر سفید نشان بننے لگتے ہیں۔
بلڈ شوگر سطح بڑھنے پر جب جسم پانی کو کھینچتا ہے تو جِلد بھی متاثر ہوتی ہے۔
جِلد خشک ہو جاتی ہے خاص طور پر ٹانگوں، کہنیوں اور پیروں کی جِلد زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
ہائی بلڈ شوگر سے اعصاب کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس کے باعث زخم لگنے پر تکلیف محسوس نہیں ہوتی جبکہ وہ جلد بھرتے بھی نہیں۔
ہائی بلڈ شوگر کے مریضوں میں بینائی کے مسائل عام ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم آنکھوں سے بھی سیال کو کھینچ لیتا ہے جبکہ خون میں اضافی شکر سے آنکھوں کی شریانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جو طویل المعیاد بنیادوں پر بینائی کو کمزور کرتا ہے۔
جسم میں بلڈ شوگر کی سطح بڑھنے پر انسولین کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔
یہ ہارمون خلیات تک توانائی کے ذرائع پہنچانے میں مدد فراہم کرتا ہے اور اس کے افعال متاثر ہونے کے باعث تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔
اگر بلڈ شوگر کی سطح مسلسل زیادہ رہے تو تھکاوٹ کا یہ احساس ہر وقت طاری رہنے لگتا ہے۔
زیادہ وقت تک ہائی بلڈ شوگر برقرار رہنے سے نظام ہاضمہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
اس کے باعث سینے میں تیزابیت، پیٹ درد، قے اور شدید قبض جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اب بلڈ شوگر کی سطح میں کمی کے اثرات جان لیں
وہ ہارمونز جو بلڈ شوگر کی سطح بڑھانے میں مدد فراہم کرتے ہیں، ان کے افعال بلڈ شوگر کی سطح گھٹ جانے پر متاثر ہوتے ہیں جس کے باعث دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔
جسم میں شکر کی سطح گھٹ جانے پر مرکزی اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔
مرکزی اعصابی نظام ہماری جسم کی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے اور جب وہ متاثر ہوتا ہے تو جسم مختلف ہارمونز خارج کرتا ہے تاکہ بلڈ شوگر کی سطح بڑھ جائے۔
مگر اس کے نتیجے میں ہاتھوں اور جسم کے دیگر حصوں کو کپکپی کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
ہائی کے ساتھ ساتھ لو بلڈ شوگر سے بھی تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
اگر انسولین بہت زیادہ متحرک ہو کر خون میں شکر کی بہت زیادہ مقدار کو خارج کردے تو جسم اسے برداشت نہیں کر پاتا، جس کے باعث تھکاوٹ طاری ہوتی ہے۔
بلڈ شوگر کی سطح بڑھانے کے لیے جسم کی جانب سے خارج کیے جانے والے ہارمونز پسینے کو بھی زیادہ خارج کرتے ہیں۔
درحقیقت یہ جسم میں لو بلڈ شوگر کی اولین علامات میں سے ایک علامت ہوتی ہے۔
کھانا کھانے کے بعد بھی اچانک بہت شدید بھوک کا احساس ہونا بھی بلڈ شوگر کی سطح میں کمی کی نشانی ہوسکتی ہے۔
جب جسم میں اچانک بلڈ شوگر کی سطح میں نمایاں کمی آتی ہے تو نظام ہاضمہ الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کے باعث متلی کا احساس ہونے لگتا ہے، ایسا اکثر بلڈ شوگر کی سطح بہت زیادہ بڑھ جانے سے بھی ہوتا ہے۔
ہمارے دماغ کو اپنے افعال کے لیے گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب خون میں شکر کی مقدار گھٹ جاتی ہے تو دماغ پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کے باعث کمزوری اور سر چکرانے جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ سر درد کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔