Time 11 ستمبر ، 2023
بلاگ

اقتدار کی مجبوریاں

وہ دو دن سے بار بار ملاقات کیلئے وقت مانگ رہا تھا۔ میں اپنی عادت کے مطابق اسکے ٹیکسٹ میسجز کو نظر انداز کر رہا تھا۔ بار بار کے تلخ تجربوں نےیہ سکھایا ہے کہ جن لوگوں کو آپ ذاتی طور پر نہیں جانتے ان کیساتھ ٹیلی فون پر گفتگو سے گریز بہتر ہے کیونکہ کچھ چالاک لوگ تو آپ کی ہیلو ہائے اور سلام دعا کو بھی ریکارڈ کرکے آپ ہی کیخلاف استعمال کرلیتے ہیں۔

 کل صبح دوبارہ میسج آیا کہ ’’مجھے آپ سے کوئی کام نہیں میں آپ کو ایک ضروری بات بتانا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے اس میسج کو بھی نظر انداز کردیا۔ پھر اسی نمبر سے مجھے اردو میں ٹائپ شدہ ایک اسکرپٹ بھیجا گیا۔ یہ اسپکرپٹ میرے بارے میں تھا۔ چند لمحوں کے بعد ایک اور میسج آیا اور مجھے بتایا گیا کہ آپ کے خلاف ایک وی لاگ کے لئے مجھے اسکرپٹ دیا گیا ہے لیکن میں نے انکار کردیا ہے تاہم میں آپ کو تفصیل بتانا چاہتا ہوں۔ کافی سوچنے کے بعد میں نے اس نوجوان کو ملاقات کیلئے بلا لیا۔ خلاف توقع اس نوجوان کےساتھ ایک ایسی خاتون صحافی بھی آگئیں جنہوں نے دو سال پہلے میرے خلاف کئی وی لاگ کئے اور سوشل میڈیا پر الزامات بھی لگائے۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ خاتون صحافی کا جھکائو تحریک انصاف کی طرف ہے اور جو صاحب ان کیساتھ آئے وہ مسلم لیگ ن کے دیوانے ہیں۔

 ان دونوں سے سرسری دعا سلام تو تھی لیکن یہ پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔ نوجوان صحافی نے بتایاکہ شاید آپ کو یاد نہ ہو لیکن 2017ء میں جب آپ نے پیکا ایکٹ پر بہت تنقید کی تو مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم نے آپ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی۔ بعد میں اسی سوشل میڈیا ٹیم کے دو ارکان کو پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تو آپ نے اس گرفتاری کی مذمت کی۔ نوجوان نے یاد دلایا کہ اسکے سمیت مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کے کئی ارکان نے آپ سے معذرت بھی کی تھی۔ نوجوان نے بتایا کہ اس دوران آپ پر اغوا اور قتل کا ایک مقدمہ درج ہوگیا۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم آپ کیخلاف متحرک ہوگئی۔ اس نے اپنے ساتھ آنیوالی خاتون صحافی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ انہوں نے آپ کیخلاف وی لاگ کیا تو میں نے آپ کا دفاع کیا۔ 

کچھ دن پہلے مجھے آپ کیخلاف اسکرپٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ حامد میر کو تباہ کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ حامد میر کو کیوں تباہ کرنا ہے؟مجھے بتایا گیا کہ حامد میر 90دن میں الیکشن کی حمایت کر رہا ہے یہ تحریک انصاف کا بیانیہ ہے اور تحریک انصاف کی حمایت پاکستان دشمنی ہے۔ نوجوان کے مطابق اس نے یاد دلایا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں حامد میر پر پابندیاں لگیں اور تحریک انصاف کی ایم این اے عالیہ حمزہ نے قومی اسمبلی میں حامد میر کیخلاف تقریر کی، آج وہ عالیہ حمزہ ملک دشمنی کے الزام کے تحت جیل میں ہے کیونکہ وہ 9 مئی کے ہنگاموں میں ملوث تھی۔ حامد میر نے 9مئی کے ہنگاموں کی مذمت کی تو وہ ملک دشمن کیسے ہوگیا؟ نوجوان صحافی کو اس سوال کا جواب دینے کی بجائے کہا گیا کہ آپ نے ہر صورت میں حامد میر کیخلاف وی لاگ کرنا ہے ورنہ کوئی اور کر لے گا۔ وی لاگ کیلئے دیئے گئے اسکرپٹ میں وہی الزامات دہرائے گئے تھے جو دوسال پہلےتحریک انصاف کی حامی خاتون صحافی نے مجھ پر عائد کیے تھے۔ 

الزامات کی مماثلت دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کے حامی صحافی نے تحریک انصاف کی حامی خاتون سے پوچھا کہ آپ کو ان الزامات کے بارے میں کس نے بریف کیا تھا؟ خاتون صحافی نے کہا کہ اسے بھی واٹس ایپ پر ایک اسکرپٹ بھیجا گیاتھا۔ جہاں سے اسکرپٹ آیا تھا وہ آج کل مذکورہ خاتون صحافی کو بھی ملک دشمن سمجھتے ہیں لہٰذا خاتون صحافی نے مسلم لیگ (ن) کے حامی نوجوان کو تجویز پیش کی کہ کیوں نہ حامد میر سے خود پوچھ لیں کہ پچھلے تیرہ سال سے ایک الزام وقفے وقفے سے بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے؟

آیئے آج آپ کو اس الزام کی تھوڑی سی تفصیل بھی بتا دیں۔ یہ 2010ء کی بات ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے ایک وزیر نےبڑے راز دارانہ انداز میں مجھے اطلاع دی کہ آپ لاپتہ افراد اور بلوچستان کے معاملے پر اپنا موقف چھوڑ دیں ورنہ آپ کو کسی مقدمے میں پھنسا دیا جائیگا۔ میں نے یہ برادرانہ مشورہ نظر انداز کردیا۔ تھوڑے دن کےبعد آئی ایس آئی کے دو سابق افسران کرنل امام اور خالد خواجہ کو ایک برطانوی صحافی کے ہمراہ شمالی وزیرستان میں اغوا کرلیا گیا۔ کچھ دن بعد کرنل امام اور خالد خواجہ کو گولی مار دی گئی جبکہ برطانوی صحافی کو رہا کردیا گیا۔ اس واقعے کے کافی دن کے بعد شالیمار پولیس اسٹیشن اسلام آباد میں میرے خلاف ایک درخواست دی گئی اور الزام لگایا گیا کہ میں نے خالد خواجہ کو اغوا کرایا اور قتل کرایا۔

 درخواست میں ایک ٹیپ کا بھی ذکر تھا۔ ٹیپ میں ہونیوالی گفتگو درخواست میں لگائے گئے الزام کے مطابق نہ تھی۔ اس مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی اور مجھ پر کوئی الزام ثابت نہ ہوا۔ اس دوران ایک ادارے نے میرے خلاف پیش کی جانے والی ٹیپ کا فرانزک کرایا تو وہ جعلی ثابت ہوگئی۔ اس کے بعد 2012ء میں میری گاڑی کے نیچے بم نصب کرایا گیا۔ تھانہ گولڑہ میں ایف آئی آر درج ہوئی۔ جس ملزم نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی وہ گرفتار بھی ہوا لیکن بعد ازاں آسانی سے فرار ہوگیا۔ 2014ء میں مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا، سپریم کورٹ کا تین رکنی انکوائری کمیشن بنایا گیا۔ نو سال گزر گئے اس کمیشن کی رپورٹ آج تک نہیں آئی۔ 2016ء میں روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ایک کالم کی وجہ سے مجھ پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا۔ 

ایک دفعہ پھر میں نے اس الزام کا عدالتوں میں سامنا کیا۔ ملک کے جید علماء نے میرے حق میں فتوے دیئے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کردیا۔ 2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے حکم پر میرے خلاف خالد خواجہ کے اغوا اور قتل کی باقاعدہ ایف آئی آر درج کردی گئی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ قتل 2010ء میں شمالی وزیرستان میں ہوا ایف آئی آر 2017ء میں تھانہ رمنا اسلام آباد میں درج ہوئی۔ اپریل 2015ء میں لاہور پولیس کے ایس پی عمر ورک حافظ ثنا اللہ عرف قاری ضرار کو گرفتار کر چکے تھے جس نے خالد خواجہ اور کرنل امام کے اغوا اور قتل کا اعتراف بھی کیا۔ بہر حال ایف آئی آر درج ہونے کے بعد میں نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی اور تھانہ رمنا جا کر شامل تفتیش ہوگیا۔مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم این اے جاوید ابراہیم پراچہ اور سینئر صحافی عبدالودود قریشی کا اللہ بھلا کرے۔ 

دونوں نے گواہی دی کہ خالد خواجہ اپنی مرضی سے شمالی وزیرستان گئے بلکہ پراچہ صاحب نے تو انہیں روکا بھی لیکن وہ نہیں مانے۔ رمنا پولیس نے مدعی کو بیان کے لئے بلایا تو مدعی بھی غائب ہوگئے اور یوں مقدمہ ختم ہوگیا۔ مئی 2021ء میں مجھ پر پابندی لگا دی گئی اور جون 2021ء میں سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی کتاب ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ شائع ہوئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ کرنل امام دراصل ان کے کہنے پر افغان طالبان اور امریکا میں مذاکرات کے لئے کوشاں تھے۔ جب جنرل بیگ کو پتہ چلا کہ کرنل امام اور خالد خواجہ ایک برطانوی صحافی کے ساتھ شمالی وزیرستان جا رہے ہیں تو انہوں نے دونوں کو وہاں جانے سے روکا لیکن وہ باز نہ آئے اور افسوسناک موت کا شکار ہوگئے۔ میں نے ملاقات کے لئے آنے والے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے حامی صحافیوں سے کہا کہ آپ جنرل بیگ کی یہ کتاب ضرور پڑھیں کیونکہ انہوں نے صرف میرے خلاف جھوٹے الزام کی حقیقت بیان نہیں کی بلکہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر لگائے گئے کئی جھوٹے الزامات کی بھی قلعی کھول دی ہے۔ جنرل بیگ کی کتاب ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ کا سبق یہ ہے کہ سیاستدان اور صحافی کسی خفیہ ہاتھ کو خوش کرنے کے لئے ایک دوسرے کےخلاف جھوٹ بولنا بند کردیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔