بلاگ
Time 17 ستمبر ، 2023

عدالتی سرعت رفتاری کا الوداعی طمانچہ

جاتے جاتے چیف جسٹس بندیال نے کیا زبردست الوداعی طمانچہ رسید کیا ہے کہ سبھی گھاگ سیاستدانوں کے ایک بار پھر ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے ہیں۔ تین رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے نے عمران خان کی درخواست ملحوظ خاطر قرار دیتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت کی نیب قانون میں لائی گئی 10 ترامیم میں سے 9 ترامیم کو کالعدم قرار دے کر ان تمام سیاستدانوں کو پھر سے احتساب عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے جنہوں نے ان ترامیم سے فائدہ اٹھایا تھا، گوکہ اس کا نقصان عمران خان اور ان کی پارٹی کے کچھ رہنمائوں کو بھی ہوگا، لیکن احتساب کے جھاڑو کی لپیٹ میں تقریباً سارے سابق وزرائے اعظم اور چوٹی کے سیاستدان آگئے ہیں۔

 پچاس کروڑ روپے تک کی کرپشن کا نیب کے دائرہ اختیار سے اخراج سے لے کر مقدمات کی نیب سے منتقلی یا خاتمے اور ان ترامیم کے ماضی سے اطلاق تک سبھی ’’کرپشن کی سہولتیں‘‘ بیک جنبش قلم منسوخ کردی گئی ہیں۔ جانے والے چیف جسٹس کو جتنا زِچ کیا گیا تھا، وہ انہوں نے مع سود لوٹادیا۔ عمران خان بھی اپنے چھوٹے سے سیل میں اپنی کینہ پرور مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے شاید بول پڑے ہوں کہ ہم توڈوبے ہیں صنم، تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔ جس مساوی کھیل کے میدان کا تقاضا پہلے نواز لیگ کرتی ر ہی تھی اور اب پیپلزپارٹی کررہی ہے، وہ احتساب کے میدان میں تو پورا ہوا چاہتا ہے، گوکہ تمام مقدس گائیں اب بھی ناقابل مواخذہ رہیں گی۔

 ایسے میں جسٹس منصور علی شاہ کا عدالتی سرعت پسندی سے اجتناب کرنے، منتخب مقننہ کے قانون سازی کے حق پر ’’غیر منتخب ججوں‘‘ کے شب خون کی مذمت اور تکونی اقتدار میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا اختلافی نوٹ17 ستمبر کے بعد کیا رنگ دکھا پائے گا، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ جنرل مشرف کی شکست سے پیدا ہونے والے خلا کو وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی سے بحال کردہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عدالتی تحرک سے پُر کرنے کی کوشش کی اس سے انتظامیہ اور مقننہ کے مقابلے میں عدلیہ کی سپرمیسی قائم ہوئی، جس نے چیف جسٹس ثاقب نثار، چیف جسٹس گلزار اور چیف جسٹس عطا بندیال تک چیف جسٹس کے مطلق اختیار کو آرمی چیف کی طاقت سے زیادہ نہیں تو ہم پلہ ضرور بنادیا۔ ٹرائی کاٹومی آف پاور کے نئے نظریہ ضرورت کے تحت آئین کو اسکی جنم بھومی پارلیمنٹ سے ارفع قرار دے کر عدلیہ کو یوں سپریم بنادیا گیا کہ آئین وہ ہے جس کی تشریح عدلیہ کرے، بھلے آئین کی کسی شق کو دوبارہ لکھ کر یا ایک شق کو دوسری شقوں سے ملاکر پڑھنے سے۔

 آئین کی شق 184(3) کے تحت سوموٹو اختیار اور من پسند بنچوں کی تشکیل اور ججوں کی تعیناتی میں چیف جسٹس آمر مطلق بن بیٹھا۔ دریں اثنا متعلقہ چیف جسٹس اور آرمی چیف کی رفاقت نے یوسف رضا گیلانی، صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم نواز شریف کی حکومتوں کو نہ صرف چلتا کیا ، بلکہ 2013 اور 2018 کے انتخابات کی سیاسی انجینئرنگ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پھر 2018 میں ہائبرڈ رجیم لایا گیا جس کے سہولت کار آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس حضرات بنے۔ اس سہولت کاری کا منظر ہم چیف جسٹس بندیال کی اور ہم خیال ججوں کے متعدد متضاد فیصلوں کی صورت دیکھ چکے۔ افتخار چوہدری سے شروع ہوئی ریلے ریس بندیال صاحب کی ریٹائرمنٹ پہ ختم ہوگی کہ نہیں؟ دیکھتے ہیں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے منصب کی اجارہ داری سے دستبردار ہوکر سپریم کورٹ کو بطور ادارہ اجتماعی منشا کا مظہر بناتے ہیں کہ نہیں۔

 ان پر 2008 سے عدلیہ کی سرعت انگیزی کے ہاتھوں متضاد عدالتی فیصلوں کے بے ہنگم نظائر کا بار ہوگا اور اس کے ساتھ ہی عدالتی ورکنگ و طریقہ کار اور 184(3) کی حدود متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے تحت فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کے علاوہ خود ججوں کی تعیناتی کے موجودہ ناقص طریقہ کار کی اصلاح کے بڑے چیلنج درپیش ہوں گے۔ اوپر سے بڑے سیاسی مقدمات جیسے انتخابات کی تاریخ کا مخمصہ انکی توجہ کا طالب ہوگا۔ سب سے بڑا چیلنج آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقا دہے جس میں آزمودہ کار سیاسی انجینئرز کے طاقتور ہاتھوں کو اگلے ہائبرڈ رجیم کے قیام یا ’’مثبت نتائج‘‘ کے حصول کیلئے کی جانے والی منظم کوششوں کو روکنا ہوگا۔ اور سب کو یکساں انتخابی میدان کی سہولت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرانی ہوگی۔ عدلیہ کو سیاست سے دور رکھنے کی اصولی خواہش کے باوجود وہ کس حد تک ان معاملات میں خود کو اور اپنے ادارے کو سیاسی لغزشوں سے بچا پائیں گے؟ دیکھتے ہیں۔

چیف جسٹس بندیال نے جو پارٹنگ کک یعنی الوداعی لات ماری ہے، اُس سے نیب کی رپورٹ کے مطابق مبینہ کرپشن کے 598 مقدمات ایک ہفتے کے اندر احتساب عدالتوں میں بحال ہوجائیں گے۔ 35 مقدمات ایسے ہیں جن میں چوٹی کے سیاستدان مطلوب ہیں پھر سے چل پڑیں گے جس میں تقریباً 150 ارب روپے کی کرپشن بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح 755 مقدمات کی انکوائریاں اور 292مقدمات کی تفتیش بحال ہوجائے گی۔ ذرا سوچئے کیا منظر ہوگا جب انتخابی مہم زوروں پر چل رہی ہوگی اور بڑے بڑے جغادری سیاستدان ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہونگے یا پھر احتساب عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہوں گے۔

 اس طرح کے سیاست دشمن اور جمہوریت کش مناظر ہم پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر جنرل مشرف کی آمریت تک بار بار دیکھ چکے ہیں۔ عوامی پارٹیاں توڑی جاتی رہی ہیں اور کنگز پارٹیاں بنائی جاتی رہی ہیں جن میں مسلم لیگ (کنونشن)، مسلم لیگ (نواز) ، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (قائد اعظم)، تحریک انصاف پاکستان، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین، استحکام پاکستان پارٹی، تحریک انصاف پارلیمنٹیرین، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور باپ پارٹی شامل ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اب تک کوئی بھی پاپولر، منتخب وزیراعظم خوفناک انجام اور ریاست سے غداری یا سیکورٹی کیلئے خطرہ جیسےسنگین الزامات سے بچ نہیں پایا۔ خواجہ ناظم الدین ہوں یا حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا پھر بے نظیر بھٹو، نواز شریف ہوں یا اب عمران خان سبھی کو خوفناک انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صرف نواز شریف تھے جو تین بار نکالے جانے کے باوجود چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں یا پھر شہباز شریف ہیں جو بطور وزیراعظم آنکھ کا تارا بننے اور دوبارہ کورنش بجالانے کیلئے بیتاب ہیں۔ 

یہ بے نظیر بھٹو کے نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کی دین تھی کہ پارلیمانی تسلسل 15برس چلا، لیکن اب وہ اسکے داعیٔوں کے ہاتھوں دفن ہوچکا۔ اب جب پھر سے سبھی سیاستدان کٹہرے میں کھڑے کردئیے گئے ہیں تو شاید ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی اور پیپلز رائٹس پر سیاسی اتفاق وقت کا اہم تقاضا ہوگا جس کے تحت آزادانہ اور شفاف انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنایا جاسکے۔ چلتے چلتے میں مبینہ کرپشن میں ملوث سیاستدانوں سے پوچھنا چاہوں گا کہ وہ انتخاب لڑنے سے پہلے کیوں نہ خود پر لگے الزامات سے بریت حاصل کرکے سیاست سے بدنامی کا داغ دھوئیں اور وہ جمہوریت اور عوامی حکمرانی کی کمزوری نہ بنیں۔ سیاست کو کرپشن سے پاک کر کے آپ اسے نیک نام دے سکتے ہیں اور جمہوریت پر لگا داغ دھوکر اسے مضبوط کر سکتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔