19 ستمبر ، 2023
اجنبی ہوتی اُردو میں کبھی ایک دولفظی مرکّب، محاورے کے طورپر بولا جاتا تھا __ ’’بندرگھائو‘‘۔ بندر کو لگنے والا کوئی زخم جوں ہی بھرنے لگتا اور اس پر موم آتا ہے، وہ اپنے تیز نوکیلے ناخنوں سے اُسے کھرچ ڈالتا ہے۔ لہو پھر سے رسنے لگتا ہے۔ زخم پھر سے ہرا ہوجاتا ہے۔ سو جو مسئلہ جان کا روگ بن جائے اور حل نہ ہونے پائے ’’بندرگھائو‘‘ کہلاتا ہے۔
ہماری عدلیہ بھی برسوں سے ’’بندرگھائو‘‘ کے آزار میں مبتلا ہے۔ گاہے گاہے آئین، قانون اور جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے والے نیک نام چیف جسٹس صاحبان بھی آئے۔ ’’بندرگھائو‘‘ کی مرہم کاری کی مقدور بھر کوشش بھی کی لیکن پیشتر اس کے کہ عدلیہ کُلّی طورپر صحت یاب ہوکر عوام کے دلوں میں اعتماد کی جوت جگاتی، کوئی مہم جو سیاست زدہ مُنصف اعلیٰ بارگاہ عدل میں جلوہ افروز ہوا اور اپنے خونخوار پنجوں سے زخم کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ کھیل اسی طورپر چلتا رہا۔
چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے مشرف کے پی۔سی۔او کے سامنے سرجھکانے سے انکار کردیا تو عدلیہ کی ناک میں نکیل ڈال کر، آمر ِ وقت کے دربار میں لاکھڑا کرنے والے ارشاد حسن خان نمودار ہوگئے۔ اُن کے بعد چیف جسٹس بشیر جہانگیری کو صرف چوبیس دن ملے اور وہ ’’بندرگھائو‘‘ کو رستا چھوڑ گئے۔ تب شیخ ریاض احمد نے چیف جسٹس کی مسند سنبھالی۔ وہ بھی لہو رَنگ ’’بندرگھائو‘‘ سے کھیلتے اور اسے کُریدتے رہے۔ افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس، آخری قسط لگ بھگ پانچ برس پر محیط تھی۔ وہ ولولہ آفریں عدلیہ بحالی تحریک کے کندھوں پر سوار ہوکر آئے اورہر کسی کے کندھوں پر سواری ہی کو منشورِ عدل بنالیا۔ تحریک ہی کی طرح آتش فشاں بھڑکائے رکھنے کو انہوں نے تقاضائے انصاف جانا۔ رُخصت ہوئے تو جنگ زدہ لشکر گاہ کا منظر چھوڑ گئے۔ اُن کا طویل سیمابی عہد بھی بے لاگ عدل اور عوامی اعتماد کے حوالے سے بے ثمر ہی رہا۔
چوہدری صاحب کا حشربداماں عہد تمام ہوا تو یکے بعد دیگرے دھیمی، ٹھہری ہوئی، مستقیم اور تصادم گریز سوچ کے حامل چار چیف جسٹس صاحبان آئے جن کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ لیکن تصدق حسین جیلانی، ناصرالملک، جواد ایس خواجہ اور انور ظہیر جمالی کا اجتماعی دور صرف ساڑھے تین سال پر محیط رہا۔ سلامت روی کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو شاید ’’بندرگھائو‘‘ بھر جاتا لیکن اس کے بعد فلکِ نامہرباں نے ایسی کروٹ لی کہ کُشتوں کے پُشتے لگ گئے۔
2016 ء میں نوازشریف سے نجات اور ’پروجیکٹ عمران خان‘ کی نوک پلک سنوارنے کا عمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا تھا کہ عدلیہ کے مقدر کا ستارہ بھی کسی نحس بُرج میں داخل ہوگیا اور پھر برسوں اسی کے اندر گھُمّن گھیریاں کھاتا رہا۔ اسکا آغاز ثاقب نثار سے ہوا۔ وہ رخصت ہوئے تو گلزار احمد۔ انہوں نے بستر سمیٹا تو آصف سعید کھوسہ اور کھوسہ گئے تو عطا محمد بندیال۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس سوختہ بخت قوم کے خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں چھپی تھیں۔ انکے پونے سات سالہ اجتماعی عہد نے نہ صرف ’’بندرگھائو‘‘ کو ناسُور بنا دیا بلکہ جَسدِ عدل کا یہ حال کر دیا کہ اسکے ہر بُنِ مُو سے لہو رس رہا ہے۔
ثاقب نثار دو سال سے زائد عرصہ تک ناقوس عدل بجاتے رہے۔ اُنکے طور اطوار (جس کیلئے زیادہ موزوں لفظ لچھّن ہے)، انکا بازاری سطح کو چھوتا ذوقِ تشہیر، غلیظ سیاسی اہداف میں لتھڑے فیصلے، عمران خان کو لانے اور نوازشریف سے نجات میں اُنکا کردار، اپنے منصب کا اپنی ذات اور قرابت داروں کے مفاد کیلئے استعمال اور ایک سیاسی جماعت کے مدار کا دُم دار ستارہ بن جانا، اُنکی بیاضِ عمل کے چند نوشتے ہیں۔ ستم یہ ہوا کہ اُن کے بعد لگ بھگ ایک سال کیلئے، عدلیہ کی کمان آصف سعید کھوسہ نے سنبھال لی جو نہ صرف ہر پہلو سے ثاقب نثار کا تسلسل تھے بلکہ ان کے لہُو اور اُن کے قلم کی سیاہی کی بوند بوند پرلے درجے کے بغض وعناد میں رچی تھی۔ وہ رخصت ہوئے تو دو برس کے لئے گلزار احمد آگئے جنہوں نے ثاقب اور کھوسہ کی لکیروں کی فقیری کو اعزاز جانا۔
نسلہ ٹاور منہدم کرنے اور کراچی کی گم شدہ ٹرام کے آثارِ قدیمہ کا سراغ لگانے کو ترجیح گردانا اور عدلیہ کے بندرگھائو کو کارِعبادت جان کر کھُرچتے رہے۔ تسلسل کے ساتھ پانچ برس پر مشتمل تین چیف جسٹس صاحبان کا یہ بے ننگ ونام عہد، عدلیہ کو زوال وپستی کی پاتال تک لے آیا۔ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب اس سے بھی زیادہ کیا گراوٹ ہوگی۔ لیکن انہیں اندازہ نہ تھا کہ اُن کی تیرہ بختی ابھی کیسے کیسے دن دکھانے والی ہے۔
عطا محمد بندیال نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا اور دیکھتے دیکھتے عدلیہ کی مانگ میں راکھ بھرنے والے اپنے تین پیش رو رفقاء کو کوسوں پیچھے چھوڑ گئے۔ ثاقب نثار، گلزار احمد اور آصف سعید کی روحیں اُن کے اندر حلول کرگئیں۔ انہوں نے بندرگھائو کو عدلیہ کے رَگ وریشہ ہی نہیں، اس کے ہڈیوں کے گُودے تک میں اتار دیا۔
انہیں آخری دن تک، کبھی ایک لمحے کے لئے بھی احساس نہ ہوا کہ عہدہ ومنصب آنی جانی چیزیں ہیں۔ وقت کسی کا باجگذار نہیں اور تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ انہوں نے سب سے بڑی عدالت کو قصباتی چوراہے کا بے ذوق ناٹک بنا کے رَکھ دیا۔ عدلیہ کے وقار اور اس پر عوامی اعتماد کے حوالے سے انہوں نے تمام اجزائے ترکیبی کو بری طرح مجروح کردیا۔ اُن کے فیصلوں، بینچوں کی تشکیل، دومخصوص ججوں کو دائیں اور بائیں ہاتھ بٹھا کر من پسند فرمان جاری کرنے، سینئر رفقائے کار کو دُور دھکیلنے، فریفتگی بلکہ جنوں کی حد تک پی۔ٹی۔آئی اور خان صاحب پر نوازشات فرمانے، باجوہ صاحب کی فرمائش پر پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکمرانی کے لئے نیا آئین تحریر کرنے، پارلیمنٹ کے اختیارِ قانون سازی پر پیہم ضربیں لگانے، ہائی کورٹس میں زیرسماعت مقدمات کو براہِ راست سپریم کورٹ میں اٹھا لانے، سپریم کورٹ جیسے معتبر ادارے میں تقسیم کی دراڑیں ڈالنے اور متعدد دیگر کارہائے نمایاں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور بولا جارہا ہے۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جو مُنصف اپنی خوشدامن کی مبیّنہ کیسٹ پر بننے والے عدالتی کمیشن کا گلا گھونٹنے، یہ مقدمہ خود سننے اور پھر ڈنکے کی چوٹ پر اپنی خوش دامن کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے صدیوں کی اخلاقی وقانونی روایات کو جوتی کی نوک پر رکھ سکتا ہو، اُس کی عدل پروری اور روشن ضمیری پہ کیا لکھنا اور کیا بولنا؟ بندیال صاحب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قاضی القضاۃ ہوتے ہوئے جب یہ واردات ڈال رہے تھے تو عین انہی دنوں مدھیہ پردیش (بھارت) ہائی کورٹ کا جج اٹل سری دھرنا، سپریم کورٹ سے التماس کررہا تھا کہ میرا کسی اور صوبے میں تبادلہ کردیا جائے کیونکہ میری بیٹی نے قانون کی ڈگری حاصل کرلی ہے اور وہ مدھیہ پردیش میں وکالت شروع کرنے والی ہے۔
عزت مآب! عطا محمد بندیال نے جاتے جاتے اَشک بار آنکھوں کے ساتھ خود کو ڈوبتے آفتاب سے تشبیہ دی۔ کاش کوئی اہل کار انہیں بتا سکتا کہ عالی مرتبت! آپ کا عہد ایک طویل اور گہری اندھیری رات تھی جس میں سورج تو کیا چاند ستارے بھی منہ چھُپائے پھرتے تھے۔ آپ تو منصب کے روزِ اوّل ہی سے غروب چلے آرہے ہیں۔
بندیال صاحب کمال عجزو انکساری کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر بھی بجالائے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں سرخرو ہوئے۔ لگتا ہے کہ اپنے فلسفہ عدل کی طرح اپنے کردار وعمل کی جانچ کا پیمانہ بھی انہوں نے خود ہی وضع کرلیا ہے۔ اللّٰہ انہیں صحت وسلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور وہ قادرِ مطلق کی میزان عدل کا حتمی فیصلہ دیکھنے سے پہلے یہ جان سکیں کہ خَلقِ خدا اُن کے بارے میں کیا کہتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔