بلاگ
Time 21 ستمبر ، 2023

نیا ہیرو؟؟؟

پاکستان کے پانچ طاقتور ترین لوگوں نے مل کر سپریم کورٹ کے ایک جج کو عبرت کی مثال بنانے کی کوشش کی۔

پانچ میں سے چار صاحبان اپنے عہدوں سے فارغ ہوچکے۔ ایک صدر باقی ہے جس نے 17ستمبر کو اسی جج سے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لیا جس جج کے خلاف صدر نے 2019ء میں نااہلی کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا تھا۔

اس ریفرنس کی سازش میں ملوث وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور آج کل وہ اٹک جیل میں ہیں۔

سازش کا ایک اور کردار آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جنہوں نے وزیر اعظم کو ایک جج کے خلاف سازش کا حصہ بننے پر مجبور کیا۔ پھر باجوہ اور عمران خان کی لڑائی ہو گئی۔

صدر نے ان دونوں کی لڑائی ختم کرانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، باجوہ بھی ریٹائر ہوگئے۔ جس ڈی جی آئی ایس آئی نے جج کی اہلیہ کے اثاثوں کی چھان بین کیلئے دن رات ایک کر دیا اور میڈیا کو جج کی کردار کشی کیلئے استعمال کیا وہ یہ سمجھتا تھا کہ اگلے تیس سال تک ریاست پاکستان پر اس کا قبضہ قائم رہے گا لیکن وہ بھی اپنے عہدے سے فارغ ہو گیا۔

بدقسمتی یہ تھی کہ ایک نہیں دو چیف جسٹس اس سازش میں شامل رہے۔ پہلے جسٹس گلزار احمد اور پھر جسٹس عمر عطا بندیال، یہ دونوں بھی فارغ ہوگئے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے ہیں۔

قاضی صاحب کا چیف جسٹس بننا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ جو لوگ پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہیں ان کیلئے قاضی فائز عیسیٰ اندھیرے میں امید کی ایک کرن ہیں۔

میں بلوچستان کے ایک ہونہار طالب علم اسرار خان کو جانتا ہوں جو برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے پر وہ اتنا خوش تھا کہ اپنے خرچے پر ان کی حلف برداری میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچ گیا۔ 18ستمبر کو سپریم کورٹ کے فل بینچ کی کارروائی براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔ اسرار خان تمام دن سپریم کورٹ میں موجود رہا اور یہ کارروائی سنتا رہا میری بھی اس سے ملاقات ہوئی۔

اسرار خان کی گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسے پاکستان کی طرف واپس کھینچ رہے ہیں۔ نئے چیف جسٹس کا یہ پیغام سب تک پہنچ چکا ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعد صرف آئین پاکستان کے تابع ہیں۔ آنے والے دنوں میں نئے چیف جسٹس صاحب اپنے دعوے پر قائم رہے اور انہوں نے آئین پر عملدرآمد کی کوشش جاری رکھی تو صرف اسرار خان نہیں بلکہ بہت سے پاکستانی نوجوان انکے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔

آج پاکستان کی سلامتی کا سب سے بڑا تقاضا آئین کی بالادستی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کسی سیاسی جماعت یا وکلاء کے کسی گروہ کی وجہ سے چیف جسٹس نہیں بنے بلکہ وہ صرف اورصرف آئین پاکستان کی وجہ سے چیف جسٹس بنے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ایک نوجوان عمر خٹک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں کچھ ریسرچ کی ہے اور مجھے قاضی صاحب کے بارے میں لکھے گئے میرے ہی کالم بھجوائے ہیں جو پچھلےسات سال کے دوران روزنامہ جنگ میں شائع ہوئے۔

سات سال قبل 19دسمبر 2016ء کو شائع ہونے والے کالم کا عنوان تھا ’’شکریہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ‘‘ میں یہ کالم بھول چکا تھا۔ یہ کالم 17دسمبر 2016ء کو وزیر اعظم نواز شریف کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کی جانے والی ایک پریس کانفرنس کا جواب تھا۔

اس پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے وزیر داخلہ نے کوئٹہ بم دھماکے کی انکوائری کرنے والے کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ذاتی حملے کئے کیونکہ رپورٹ میں وزیر داخلہ کے کچھ کالعدم تنظیموں کی قیادت کے ساتھ تعلقات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ کمیشن نے وزیر داخلہ کو تحریری سوالات بھجوائے اور وزیر داخلہ نے تحریری جوابات دیئے جو رپورٹ میں شامل تھے لیکن وزیر داخلہ نے یہ خیال نہیں کیا کہ ایک جج نے بم دھماکے میں شہید ہونے والے 70 افراد کے ورثاء کو فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے دو ماہ سے بھی کم عرصے میں انکوائری مکمل کی اور رپورٹ کا اردو ترجمہ بھی جاری کر دیا۔

وزیر داخلہ نے اپنی ذات کا دفاع کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو مقام تضحیک قرار دیدیا۔ میرے اس کالم پر چودھری نثار علی خان ناراض ہو گئے اور آج تک ناراض ہیں۔

2016ء میں مسلم لیگ ن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ناراض تھی۔ 2019ء میں اس جج نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھا تو تحریک انصاف کی حکومت ناراض ہو گئی۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ 2016ء میں انکی انکوائری رپورٹ جماعت الاحرار کے خلاف تھی جو کوئٹہ بم دھماکے میں ملوث تھی۔ 2019ء میں ان کا فیصلہ تحریک لبیک کے خلاف تھا جس نے ناموس رسالت ؐ کے نام پر فیض آباد چوک راولپنڈی میں دھرنا دیکر ہنگامہ آرائی کی اور قابل اعتراض تقاریر کیں۔

دونوں مرتبہ طاقتور ریاستی ادارے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ناراض ہو گئے۔ 15اپریل 2019ء کو میں نے ’’شہداء کے ساتھ غداری‘‘ کے عنوان سے کالم میں لکھا کہ ’’خدارا قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججوں کو متنازع بنانے کی بجائے ان کے لکھے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کریں اور ان شہداء کے ساتھ غداری نہ کریں جن کو قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف دینے کی کوشش کی‘‘۔

اس کالم کے شائع ہونے کے بعد ایک ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان نے مجھے کہا کہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن صرف چند دن کے بعد انہوں نے ریفرنس دائر کرا دیا۔ 14جون 2019ء کو یہ ریفرنس سماعت کیلئے مقرر ہو گیا تو گیارہ جون 2019ء کو میں نے ’’رسوائیوں سے ڈرتا ہوں‘‘ کے عنوان سے کالم میں عمران خان کو یاد دلایا کہ آپ نے تو مجھے کہا تھا کہ آپ کے پاس ججوں سے لڑنے کیلئے وقت ہی نہیں کیونکہ آپ کو معیشت سنبھالنی ہے پھر یہ ریفرنس کہاں سے آ گیا؟

اس ناچیز کے کالم کا آغاز ان الفاظ سے ہوا تھا ’’ایک دفعہ پھر کچھ لوگ جیت کر ہارنے والے اور کچھ نہتے لوگ ہار کر جیت جائیںگے۔ کچھ لوگوں کا انجام دیوار پر لکھا ہوا ہے لیکن انہیں دیوار پر لکھا دکھائی نہیں دے رہا‘‘۔

قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس مقدمے کی سماعت کو بار بار قریب سے دیکھ کر میں نے 24 فروری 2020ء کو ’’پھر وہی پرانی غلطیاں‘‘ کے عنوان سے کالم میں لکھا کہ یہ مقدمہ قاضی صاحب جیت چکے ہیں لیکن عمران خان کی حکومت نے ان کے لئے جو گڑھا کھودا اس میں وہ خود ہی گرنے والے ہیں۔

آج قاضی صاحب چیف جسٹس بن چکے ہیں اور خان صاحب جیل پہنچ چکے ہیں۔ امید ہے کہ نئے چیف جسٹس کسی فرد یا جماعت سے انتقام لینے کی بجائے اپنا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیں گے۔

نئے چیف جسٹس کو اپنے حلف کی پاسداری کرنی ہے۔ انہیں پاکستان کے آئین کا تحفظ بھی کرنا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی کرانا ہے۔ جو لوگ اپنے حلف کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں انہیں روکنا ہے۔

اگر انہوں نے آئین کے مطابق بروقت صاف اور شفاف الیکشن کا راستہ ہموار کر دیا تو وہ کسی ایک جماعت کے نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کے نئے ہیرو بن کر ابھریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔