Time 24 ستمبر ، 2023
بلاگ

ایک آنکھ کا تارا اور دوسرا آنکھ کا شہتیر

میاں نواز شریف نے جونہی 2017 میں انکی حکومت کو اُلٹنے کی سازش کے کرداروں (جن میں سرفہرست جنرل باجوہ، جنرل فیض، چیف جسٹس ثاقب نثار و دیگر جج صاحبان ہیں) کو انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا تو اس کے ساتھ ہی سابق چیف جسٹس بندیال کی شہباز حکومت کی نیب قوانین میں لائی تبدیلیوں کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نیب کی توپیں بھی سیاستدان کے خلاف کھل گئیں۔

 ایسے میں برادر خورد آنکھ کے تارے کو ہنگامی طور پر سر کے بل لندن لوٹنا پڑا۔ اب آنکھ کے شہتیر ہوئے نواز شریف کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو اپنی زباں بندی کر لیں اور سیاسی پناہ گزینی پہ اکتفا کریں یا پھر اپنے بیانیے کیلئے کوئی محفوظ راستہ نکالیں۔ زباں بندی سے تو مدفن ہوئے بیانیے کو زندہ کرنے کی معصومانہ سعی لاحاصل پہ پانی پھر جاتا۔ البتہ سیاسی پناہ گیری کی کوئی راہ ماضی کی طرح نکالی جا سکتی تھی۔ گو کہ میاں نوازشریف اپنی ہٹ پہ قائم رہے اور مستقبل کی بار آوری کیلئے ماضی کے سازشیوں کو انجام تک پہنچانے پہ بظاہر مصر ہیں۔

 کیونکہ شہباز حکومت کی ناکارہ کارکردگی اور سول اختیار پر شرمناک سمجھوتوں کے باعث ووٹ کی ذلت کا جو اہتمام کیا گیا تھا، اس پر میاں صاحب کیا خاک بیانیہ بناتے۔ گویا، بظاہر جو ’’پیغام‘‘ لے کر شہباز شریف بھا گم بھاگ لندن گئے، اُسے کیا واقعی بڑے میاں صاحب نے درخور اعتنا جانا یا پھر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی جھوٹی سچی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے ایک پھوکا مگر عوامی پذیرائی کیلئے ضروری فائر قرار دے کر معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی ہو گی۔ کچھ کہنا مشکل ہے۔ تیر پھر کمان سے نکل چکا اور احتساب کے شکنجے کسنے کی تیاریاں بھی تیز ہو چلی ہیں۔ اندر کی خبر تک پہنچ رکھنے والے محقق صحافی بھی اب کی بار خیر نہیں کے پروانے بڑے وثوق سے پیش کر کے سراسیمگی پھیلانے کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔

 بہرکیف، میاں نواز شریف کی 21اکتوبر کو لاہور آمد کا اعلان برقرار ہے۔ مطالبہ تو میاں صاحب کا آئینی بھی ہے، جمہوری بھی اور اخلاقی بھی، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بقول رانا ثنا اللہ اور زبیر صاحب عمران خان کی حکومت سے خلاصی کیلئے اسی جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دی گئی، جس کے ویسے ہی گناہ کیلئے قائد ن لیگ ان کا کورٹ مارشل چاہتے ہیں جو کسی ذی روح سویلین کے اختیار میں نہیں۔ کسی جیالے نے غضب کی یاد دہانی کرائی کہ پھر جو کارروائی جنرل کیانی اور ان کے دست راست آئی ایس آئی چیف نے میمو گیٹ کی صورت ڈالی تھی اور اس کی وکالت کو میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں پیش ہو گئے تھے، اس کا مواخذہ بھی تو کیا جائے۔

یوں اس گیریژن ریاست کی تاریخ کے تمام مارشلوں کو تاریخ کے کٹہرے میں لانا ہوگا جسکی استطاعت ان غیر منظم، سمجھوتہ باز اور باہم جوتم بیزار سیاسی جماعتوں کے بس میں نہیں۔ گو کہ اسٹیٹ آف مارشل رُول کا اب کوئی مداح نہیں رہا، یہ مسلط رہنے پہ ابھی بھی مصر ہے۔ تاریخی حساب چکانے کیلئے انفرادی کرداروں کی پامالی کی بجائے بہتر ہے کہ ایک ٹرتھ اینڈ ری کونسلیشن کمیشن کو یہ کام سونپ کر ثواب دارین حاصل کیا جائے۔

 عین اسی وقت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کے بارے میں انہی کے فیصلے کے خلاف بڑی ہی مخاصمانہ ریویو اپیلیں ایک تین رکنی بینچ کے سامنے مقرر کر دی گئی ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے عدالت اور عدالتی فیصلے کے خلاف بہت ہی جارحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے اسے مسلح افواج کی مٹی پلید کرنے اور ’’دشمن کے مقاصد‘‘ کی تکمیل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔ ریویو پٹیشن پہ فیصلے کو ٹھوس اور جامعہ اداراتی اصلاح احوال تک محدود کر دیا جائے تو سلامتی کے اداروں کی پیشہ ورانہ صحت اور انسانی حقوق و آئینی پاسداری کیلئے اچھا شگون ہوگا۔

سویلین تاریخ کی ٹریجڈی کا طربیہ پہلو یہ ہے کہ اب ایک کے سوا سب ہی انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ستم زدہ تحریک انصاف کی تو یہ ضرورت ہے ہی، اب پیپلز پارٹی بھی میوزیکل چیئر گیم سے نکل کر اس کا تقاضا کرتے ہوئے ن لیگ کی ریاستی پذیرائی پہ خوب ناک بھوں چڑھا رہی ہے۔ اور بلاول بھٹو اپنے والد کی مفاہمت پسندی سے بندھے ہاتھوں کو کھولنے کی استدعا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

 نوجوان اور باصلاحیت بلاول بھٹو اب خیر سے 35 برس کے ہو چلے ہیں اور اپنے تئیں خود مختار لیڈر بننے کیلئے انہیں شاید اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی روایت سے رجوع کرنا ہو گا جب محترمہ نے پیپلز پارٹی پہ اپنے اختیار کل کیلئے اپنی نہایت محترم والدہ کو چیئرپرسن کی شراکت سے فارغ کر دیا تھا۔ دریں اثنا الیکشن کمیشن نے باقاعدہ انتخابی شیڈول کا اعلان کئے بغیر اگلے برس جنوری کے آخری ہفتے میں تمام انتخابات کے انعقاد کا محض عندیہ دیا ہے۔

 حیرانی ہے کہ حلقہ بندیوں کی 27 ستمبر کو اشاعت کے بعد، مزید دو ماہ الیکشن کمیشن کیا کرتا رہے گا۔ حلقہ بندیوں پہ اعتراضات اور ان پر ضلعی ریٹرننگ آفیسرز فیصلے 15روز میں کر سکتے ہیں جو 13 اکتوبر تک حتمی طور پر جاری کی جا سکتی ہیں اور اس کے 54روز بعد دسمبر کے آخری ہفتے میں انتخاب کرائے جا سکتے ہیں۔ اگر تو یہ التوا تحریک انصاف اور عمران خان کو سیاسی میدان سے ناک آئوٹ کرانے کے لئےکیا جا رہا ہے تو وہ اس قلیل عرصہ میں ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ نہ ہی اتنی پاپولر جماعت کو انتخابی عمل سے نکال کر یا اس کی شرکت مشکل بنا کر آپ انتخابات کی شفافیت کے تاثر کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

 کسی دوسری جماعت کو پسندیدہ گھوڑا بنانے اور کنگز پارٹیوں کے خچروں کو سبک رفتار بنانے سے سارا انتخابی عمل اپنا تمام تر اخلاقی جواز کھو بیٹھے گا۔ اور سیاسی بحران حل ہونے کی بجائے اور گھمبیر ہو جائے گا۔ تو یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔ کیئر ٹیکرز بھی دیکھ لئے ہیں، انہوں نے چیئر ٹیکر کیا بننا ہے۔ تیتر نہ بٹیر کا متضاد نظام چلنے سے رہا۔

 دور کی کوڑیوں پہ سیاسی حکمت اور نظام سازی چلنے سے رہی۔ بہتر ہوگا کہ سیاسی مکالمے کا آغاز کیا جائے اور ایک وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ماحول بنایا جائے۔ سیاست کی بلا سیاستدانوں کے سر کی جائے اور انہیں بٹھایا جائے کہ وہ کسی میثاق سیاست و معیشت اور رولز آف دی گیم پر اتفاق کریں۔ جس ملک میں مہنگائی 38 فیصد سے زائد ہو 9کروڑ پچاس لاکھ لوگ غربت کا شکار ہوں جو آبادی کا تقریباً 40فیصد ہیں اور کروڑوں نوجوان بیروزگاری اور تاریک مستقبل سے دوچار ہوں۔ جہاں اُمرا کھائو پیو اور غریب کام کرو اور مرو کا تضاد منہ پھاڑے کھڑا ہو۔ وہ انقلاب فرانس طرز کی انارکی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ پورے کا پورا نظام انہدام (Implosion) کی جانب رواں ہے۔ ایسے میں کوئی قابل عمل راہ اصلاح پانے کی جستجو کے سوا کوئی چارا نہیں۔ لیکن کون کرے؟ کرے تو کچھ نیا، کچھ انقلابی!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔