02 اکتوبر ، 2023
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی 28 ستمبرکی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کا فیصلہ تحریر کیا جو 4 صفحات پر مشتمل ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ تمام فریقین کو فیض آباد دھرنے سے متعلق حقائق پیش کرنےکا ایک اور موقع دے رہے ہیں، فریقین کیس سے متعلق حقائق بیان حلفی کے ذریعے جمع کراسکتے ہیں۔
عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا ہےکہ کیس میں تحریری جوابات 27 اکتوبر تک جمع کرائے جائیں اور کیس کی سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نےکہا کہ وزارت دفاع اپنی نظرثانی درخواست پر مزیدکارروائی نہیں چاہتی، آئی بی، پیمرا اور پی ٹی آئی نے بھی متفرق درخواست کے ذریعے نظرثانی درخواستیں واپس لینےکی استدعا کی جبکہ درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی، درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر 4 پر اعتراض اٹھایا اور دوران سماعت کیس سے متعلق 4 سوالات اٹھائے گئے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا کچھ لوگوں نے عوامی سطح پرکہاکہ انہیں معلوم ہےکہ کیا ہوا، ان لوگوں کاکہنا تھا کہ فیض آباد دھرناکیس میں عدالت نے ان کے نکتہ نظرکو مدنظر نہیں رکھا، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلےکے پیراگراف 17 کے تحت یہ مؤقف عدالت کے لیےحیران کن ہے۔
حکم نامے کے مطابق عدالت نے فیض آباددھرناکیس فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کرتحریری طور پر اپنا مؤقف پیش کرسکتا ہے، اٹارنی جنرل نےکہاکہ فیض آباددھرنا ایک محدود وقت کے لیے تھا اوراس کے دائرہ اختیار کو وسیع نہیں کیا جانا چاہیے۔
کیس کی تفصیلات:
یاد رہے کہ آئینی ترمیم الیکشن بل 2017 میں حلف نامے کے الفاظ کو تبدیل کیے جانے پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 22 روز تک دھرنا دیا گیا تھا، مظاہرین کے خلاف ایک آپریشن بھی کیا گیا، جس کے بعد ایک معاہدے کے بعد دھرنا اختتام پذیر ہوا، مظاہرین کے مطالبے کے بعد اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، اس دھرنے میں اسلام آباد پولیس کا کُل خرچہ 19 کروڑ 55 لاکھ روپے آیا جب کہ میٹرو اسٹیشن کی توڑ پھوڑ اور بندش کے باعث قومی خزانے کو 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان بھی ہوا جس کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخودنوٹس لیا تھا۔
اس وقت کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس مشیر عالم پر مبنی دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔ دو رکنی بینچ نے 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ریاست کو غیر جانبدار اور منصفانہ ہونا چاہیے، قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اداروں میں، آزادانہ کام کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ یا ایجنسی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے، کسی بھی ایجنسی یا ادارے کو آزادی اظہار پر پابندی لگانے، ٹی وی نشریات، اخبارات کی اشاعت میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں پی ٹی آئی اور ایم کیو کیو ایم کے خلاف آبزرویشن بھی دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ سانحہ 12 مئی پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی اور قتل، اقدام قتل میں ملوث حکومت میں شامل بڑے افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے بری مثال قائم ہوئی اور تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
فیصلے کے خلاف متاثرہ فریقین نے 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔
یاد رہےکہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلےکے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا۔