بلاگ
Time 08 اکتوبر ، 2023

افغان ’’مہاجر‘‘ اور تاریخ کے گناہ

تاریخ کیا کیا مناظر سجاتی ہے، اسے بخوبی افغانوں اور پشتونوں کی علاقہ گیری اور برصغیر پہ پے درپے کشت و خون سے بھرے حملوں اور مسلسل اپنے ہی وطن سے ترک مکانی کی صورت دیکھا جاسکتا ہے۔ افغانوں کی جنوب مشرق سے شمال مغرب اور اس سے آگے تک کی قبضہ گیری اور انکی آبادکاری صدیوں پرانی ہے۔ 

دسویں اور بارہویں صدی میں غزنوی اور غوری حملہ آور ہوئے، بہلول لودھی پہلا افغان حملہ آور تھا جس نےلودھی سلطنت قائم کی (1451-1488) ۔ نادر شاہ کے بعد احمد شاہ درانی نے برصغیر پر 8حملے (1748-1767) کیے اور دہلی کے علما پہلے افغانوں کو حملہ آور ہونے کی دعوت دیتے رہے اور پھر کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے۔ کہیں جاکر 19 ویں صدی میں پہلے سکھوں نے اور بعدازاں انگریزوں نے افغانوں کو پسپا کیا اور پھر جب ’’گریٹ گیم‘‘ لگی تو 1893 میں مورتیمر ڈیورنڈ نے آج کی ڈیورنڈ لائن کھینچی، یوں افغانستان، روس اور برطانیہ کے درمیان ایک بفرزون بنا کہ روسیوں کی گرم پانیوں تک رسائی روکی جاسکے۔ جب برطانیہ سے جنگ آزادی کی تحریک چلی تو اس میں خان عبدالغفار خان، عبدالصمد اچکزئی اور پیر آف اِپی شامل تھے۔ لیکن جب کانگریس نے تقسیم ہند کا پلان منظور کرلیا تو خدائی خدمتگار یا ریڈ شرٹ موومنٹ تقسیم ہند کی قربان گاہ کی نذر ہوگئی۔

 جون 1947 میں پشتونستان کے مطالبے کیلئے بنوں کے مقام پر قرار داد پاس کی گئی، لیکن پشتونوں کے علیحدہ وطن کا مطالبہ بڑی مذہبی تقسیم کی نذر ہوگیا۔ 1947 کے ریفرنڈم کا ریڈشرٹس نے بائیکاٹ کیا اور وہ تاریخ کی بند گلی میں پھنس کے رہ گئے۔ بعدازاں NWFP کی حکومت کو برخاست کردیا گیا اور سرخ پوشوں پہ ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ پھر ون یونٹ بنا تو اسکے خلاف تمام چھوٹے صوبوں کے قوم پرستوں نے طویل جدوجہد کی جو بھٹو حکومت کے دور تک فوج کشی کے خلاف جاری رہی۔ اس دوران مختلف افغان شاہی حکمران ’’پشتونستان کی آزادی‘‘ کی تحریک کی حمایت کرتے رہے اور افغانستان قوم پرستوں کی جدوجہد کا مرکز بنا رہا، تاآنکہ انقلاب ثور بپا ہوا اور کمیونسٹ افغانستان کے حکمران بنے، جنکے خلاف طویل امریکی جہاد سے ڈیورنڈ لائن کو مٹاتے ہوئے سرحد کے اس جانب کے علاقے افغان مجاہدین کی پناہ گاہ بن گئے۔

 مہاجرین کے ریلوں کا آغاز تب سے ہوا اور پھر کابل میں حکومتوں کی تبدیلیوں اور خانہ جنگیوں کے ہاتھوں لاکھوں افغان نقل مکانی کرتے رہے، کابل سے کراچی اور قندھار سے کراچی کی جانب یہ ہجرت کا کارواں جاری رہا۔ اب کتنی ہی افغان نسلیں یہاں رچ بس گئیں، اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ افغان مہاجرین کی اصطلاح کا استعمال انقلاب ثور کے بعد سے ہونا شروع ہوا جب مہاجرین کے بڑے ریلے کابل میں اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ پے در پے آتے گئے۔ 

گزشتہ 52برس سے پاکستانی ریاست کی جنرل ضیا الحق سے جنرل مشرف تک کی حکمت عملیوں کے اس پس منظر میں افغانستان سے ہونے والی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے نتیجے میں اب لروبرطالبان کی لہر ہے جنکی حکومت افغانستان میں عالمی تنہائی کے باوجود برقرار ہے اور اس کی پاکستانی شاخ دریائے آمو سے دریائے سندھ تک امارات اسلامی افغانستان کی توسیع کیلئے مائل بہ ’’جہاد‘‘ ہے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ہاتھوں معاشی تباہی نے ریاست پاکستان کو وجودی خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی عربوں، افغانوں، مغلوںاور دیگر حملہ آوروں سے تاریخی وابستگی اور مذہب کی بنیاد پر ایک علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ اور پھر قومی ریاست کی تعمیر میں محمد بن قاسم سے احمد شاہ ابدالی تک بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ تاریخی تشخیص کی تشکیل سے وادی سندھ میں بسنے والی قومیتوں کے تاریخی تشخص کے پلے کیا چھوڑا گیا۔ لروبر افغانستان یا پشتونستان تو کبھی پختون قوم پرستوں کا ’’قومی نعرہ‘‘ ہوتا تھا جو اب طالبان نے ہتھیا لیا ہے۔

غیر قانونی افغان مہاجرین کی 31اکتوبر تک پاکستان سے ملک بدری کے خیبرپختونخوا اور پھر وفاقی ایپکس کمیٹی کے اعلان کے بعد ایک تہلکہ مچ گیا ہے۔ ڈان اخبار کے اسمعٰیل خان (7اکتوبر) کی کھوج کے مطابق اندازاً 17 لاکھ ایسے افغان مہاجرین ہیں جو قانون کے دائرے سے باہر ہیں۔ UNHCRکے مطابق 2.18 ملین افغان مہاجر ہیں جن میں سے 13 لاکھ کے پاس سفری دستاویزات ہیں۔ 880,000 کے پاس افغان شہریت کارڈز ہیں۔ مہاجرین کی بڑی تعداد میں اضافہ طالبان حکومت کے دوبارہ قیام کی صورت سامنے آیا ہے جنکی تعداد آٹھ دس لاکھ تک بیان کی جاتی ہے اور جن میں سے بہت سے مغربی ممالک میں سکونت اختیار کرنے کے منتظر ہیں جو کہ مشکل نظر آتی ہے۔ اب پندرہ بیس لاکھ افغانوں کی پاکستان سےبدری بذات خود ایک ایسا چیلنج ہے۔

معاملہ افغان مہاجرین کی واپسی ہی کا نہیں ہے، افغانستان کی معاشی تباہی کا بوجھ پاکستان کے ناتواں کندھوں پہ آن پڑا ہے اور ہمارے انصار، مہاجرین کی مہمان نوازی سے تائب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان کیلئے پاکستان کے ساتھ تجارتی راہداری کے 2010 کے معاہدے کے بعد اور خاص طور پر 2021 میں طالبان کی دیوالیہ حکومت کے قیام سے ایک ناقابل برداشت معاشی بوجھ پاکستان کی بحران زدہ معیشت کے گلے پڑگیا ہے۔ ایک انگریزی اخبارمیں شہباز رانا کی (6 اکتوبر) رپورٹ کے مطابق جتنی زیادہ پاکستان کی درآمدات گھٹیں اس سے کہیں زیادہ افغانستان کی درآمدات ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعہ بڑھیں۔

 گزشتہ برس افغانستان کی درآمدات 7.3 ارب ڈالرز تھیں جبکہ برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالرز کے قریب تھیں۔ اتنا بڑا تجارتی خسارہ پاکستان میں انہی اشیا کی اسمگلنگ کرکے اور ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ سے پورا کیا گیا، جو سراسر ایک ڈاکہ تھا۔ افغانستان کی بڑی درآمدات 5.6 ارب ڈالرز تک بڑھ گئیں جبکہ اس کی منڈی میں انکی مانگ نہ تھی۔ مثلاً مصنوعی کپڑے کی افغان درآمد 35 فیصد بڑھی جبکہ پاکستان میں یہ 40 فیصد کم ہوئی، بجلی کے سامان کی افغان درآمد 72 فیصد بڑھی تو پاکستان میں یہ 62فیصد کم ہوئی۔ افغانستان میں پلاسٹک کی اشیا کی درآمد 206فیصد بڑھی تو پاکستان میں 23فیصد کم ہوئیں، ٹائرز کی درآمد افغانستان میں 80فیصد بڑھی تو پاکستان میں 42 فیصد کم ہوئی، مشینری کی درآمد افغانستان میں 211 فیصد بڑھی تو پاکستان میں 51 فیصد کم ہوئی۔

 غرض یہ معلوم پڑا کہ پاکستان میں درآمدات میں کمی کو افغانستان کی ناجائز ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعہ پورا کیا گیا اور اس کیلئے پاکستان کی کرنسی کی ہنڈی اور بلیک مارکیٹ کو استعمال کرکے اربوں ڈالرز کی اسمگلنگ افغانستان کو کی گئی۔ اس دوہری اسمگلنگ سے پاکستان اور افغانستان کے اسمگلروں نے خوب مال بنایا او رپاکستان کو دیوالیہ پن کی کھائی میں دھکیل دیا۔ گویا سبق یہ ہے کہ ہم (افغان) تو ڈوبے ہیں صنم، تم (پاکستان) کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اب افغان اسمگلنگ اور جہادی پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔ لینی تو تزویراتی گہرائی تھی ملی بھی تو تزویراتی کھائی۔ اب بھگتیں تو کیسے؟ افغان باقی کہسار باقی!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔