09 اکتوبر ، 2023
ہمارا ملک دیکھیں، ہمارے حالات پر نظر دوڑائیں، معاشی ابتری اور مہنگائی کا جائزہ لیںیا طرز حکمرانی کے زوال اور دنیابھر میں ہماری انتہائی گرتی ہوئی شہرت پر بات کریں،ایک پاکستانی کے طور پر بہت مایوسی ہوتی ہے ۔افسوس اس امر کا ہے کہ سب کچھ خراب ہو رہا ہے، ہم روز برو ز تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں، کچھ ٹھیک نہیں رہا۔
حکمراں طبقہ اور اشرافیہ ،جن پر حالات کو درست کرنے کی بنیادی ذمہ داری ہے وہ اپنی عیاشیوں اور اللے تللوں میں مصروف ہیں۔ دنیا سے ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے بھیک مانگتے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ اور حکمراں طبقے کی عیاشیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔وی آئی پی کلچر سے اتنے مرعوب ہیں کہ ہر کوئی وی آئی پی بننا چاہتا ہے۔ پروٹوکول اور سیکورٹی کے نام پر قوم کے اربوں کھربوں روپے ہوا میں اُڑا دیئے جاتے ہیں۔ پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کی اس بیماری نے ہماری عدلیہ کو بھی ایک ایسی علت میں مبتلا کر دیا ہے جس کی دوسرے ممالک میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
دی نیوز کے سینئر صحافی عمر چیمہ کی خبر پڑھی اور دکھ ہوا کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے اور ہم کیسے ٹھیک ہوں گے۔خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کےبیٹے کو اُس کے بیرون ملک دورے کیلئے پروٹوکول دینے کے معاملے پر وزارتِ خارجہ کو باقاعدہ خط لکھا گیا۔
قواعد و ضوابط کے مطابق کسی کو اس طرح ترجیحی پروٹوکول نہیں دیا جا سکتا لیکن وزارت خارجہ سے کہا گیا کہ وہ اس ضمن میں ضروری اقدامات کرے۔ پروٹوکول دینے کی درخواست لاہور ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے آئی ہے جن کا بیٹا پاکستان سے باہر جا رہا ہے۔ جج کا بیٹا سید محمد علی ایک ڈاکٹر ہے اور امریکا جا رہا ہے۔یہ خواہش ظاہر کی گئی کہ محمد علی کو ابو ظہبی میں امیگریشن کے دوران اور پھر نیویارک ایئر پورٹ پر پروٹوکول دیا جائے جہاں سفارت خانے کا عملہ محمد علی کو ان کی منزل تک پہنچائے۔
یہی پروٹوکول محمد علی کی پاکستان واپسی کے موقع پر تمام ائیرپورٹس پر مانگا گیا۔خبر شائع ہوئی تو حکومت نے جواب لکھ دیا کہ جج کے بیٹے کو ایسا پروٹوکول دینا ممکن نہیں لیکن ذرائع کے مطابق ہمارے سفارت خانوں کا سب سے اہم کام ہی پاکستانی اشرافیہ کو پروٹوکول دینا ہوتا ہے جبکہ اصل کام پر کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ میری چیف جسٹس قاضی فائز سے درخواست کہ عمر چیمہ کی خبر پر نوٹس لیں اور کم از کم اپنے گھر یعنی (عدلیہ) کو پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کی بیماری سے پاک کریں۔ اشرافیہ کے ظلم سے پاکستان کو بچائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔