نواز شریف کی آمد!

پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم اور ہر بار ’’ناپسندیدہ‘‘ قرار دیئے گئے میاں نواز شریف چار سال بعد واپس پاکستان آ رہے ہیں، پہلے اس حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جاتی تھی، اب اس خبر کی تصدیق کر دی گئی ہے اور مسلم لیگ (ن) بھرپورطریقے سے مینار پاکستان کے جلسے میں ان کے استقبال کی تیاریوں میں مشغول ہے۔ یہ استقبال ایئر پورٹ پر نہیں ہوگا کہ انہوں نے وہاں سے ہیلی کاپٹر پر جاتی امرا چلے جانا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کیلئے اسلام آباد رکیں۔ ائیر پورٹ پر استقبال کی کوئی اپیل نہیں کی گئی کہ اس صورت میں اسی دن ایئر پورٹ اور اس کے فوراً بعد مینار پاکستان کے جلسے میں شرکت عملی طور پر ممکن نہیں تھی۔

میں نے آج اپنے دفتر جاتے ہوئے سڑک کے دونوں جانب مسلم لیگ (ن) کے پرچم نواز شریف کی تصویر سے سجے دیکھے۔ اس کے علاوہ جماعت کے کارکن لوگوں سے تجدید ملاقات کرتے بھی دکھائی دیئے اور شاید جلسے سے بھی زیادہ اہم چیز ان سب لوگوں سے ملاقاتیں ہیں جو ہر مشکل وقت میں جماعت اور نواز شریف کی ہر آواز پر لبیک کہتے رہے۔ مگر بعد میں ایک عجیب صورت حال نظر آئی اور وہ یہ کہ آپ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے ساتھ نہیں ہیں، اس کے علاوہ ووٹروں کو ان کے حال پر بھی چھوڑ دیا گیا،ان کا پرسان حال کوئی نہ تھا، مہنگائی کے حوالے سے تو ان کی دلجوئی کسی طور پر بھی ممکن نہ تھی۔ مگر اپنی حکومت میں بھی جائز کاموںکیلئے کوئی دستگیر انہیں دستیاب نہیں تھا اور اب تو نگران حکومت ہے۔ تاہم یہ بات تسلی بخش ہے کہ اب لوگوں تک رسائی کی جا رہی ہے اور ان کے شکوے شکایتیں سنی جا رہی ہیں۔

مگر میرے نزدیک اس کوتاہی کی وجہ یہ تھی کہ عوام کے ’’سر کا سائیں‘‘ ان سے دور تھا۔ نواز شریف اپنے اور پرائے دونوں سے ملتے تھے، عوام کے ساتھ ان کا رابطہ مسلسل تھا۔ ایک سیزنڈ پالیٹیشن کے طور پر ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر رہتا تھا۔ وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ادنیٰ و اعلیٰ ملاقاتیوں سے گفتگو کے دوران حیلے بہانے سے ان کی رائے لیا کرتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ تھیٹر کیلئے کوئی ناٹک لکھنے بیٹھتے تو کئی مرتبہ باہر بازار میں آ جاتے اور کسی ریڑھی والے کو اپنے مکالمے سناتے، اگر وہ پاس کردیتا تو اسے ناٹک میں شامل کردیتے، بصورت دیگررہنے دیتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے مخاطب عوام ہوتے تھے اور وہ ان کی پسند کا خیال بھی رکھتے تھے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ووٹ بینک بھی عوام ہوتے ہیں جو سیاست دان ان کے خوابوں کی تعبیر نہیں بنتا وہ اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف اس حوالے سے جادوگر ہیں، وہ عوام اورخواص دونوں کی ذہنی کیفیت سے پور ی طرح آگاہ ہیں، وہ ملک کے تین بار وزیراعظم ایسے ہی نہیں بنے اور انہیں اس منصب سے یونہی نہیں ہٹایا گیا۔

اب اکیس اکتوبر کو میاں صاحب واپس آ رہے ہیں جہاں عوام مینار پاکستان کے جلسے میں ان کا استقبال کریں گے،میں مایوس لوگوں میں بھی ایک نیا ولولہ اور جوش و خروش دیکھ رہا ہوں، انہیں یقین ہے کہ یہ وژنری شخص ایک بار پھر انہی رستوں پر گامزن ہوگا جو رستے ملک کو ترقی کی جانب لے جا رہے تھے اور جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کے ترجمان تھے۔ ایک بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور دہرا رہا ہوں کہ اس وقت بظاہر اس جماعت کے ہم نوا بہت کم ہیں،یہ بات درست نہیں ہے۔میں مسلم لیگی کارکنوں کو ’’گونگا پہلوان‘‘ سمجھتا ہوں، وہ وقت آنے پر گونگے نہیں رہتے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کمزور ہوگئی ہے، اس خیال خام کو دل سے نکال باہر پھینک دینا چاہیے، عمران خان نے اپنےسپورٹرز کے ذہنوں کو ملک کیلئے تیلا تک نہ توڑنے کے باوجود پوری طرح مسمرائز کیا ہوا ہے، آپ جو مرضی کر لیں وہ کوےّ کو سفید ہی کہیں گے، چنانچہ مسلم لیگرز کو اپنے حریف کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے۔

مجھے علم ہے کہ مسلم لیگ کے رہنما موجودہ انتہائی مہنگائی اور اس حوالے سے عوام کے جذبات سے ناواقف نہیں ہیں، لوگ گزشتہ حکومت کو ان کے کھاتے میں ڈالتے رہے ہیں اور یوں اس دور کے بہت سے تکلیف دہ اقدامات کا ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہراتے ہیں جبکہ مسلم لیگ نہیں بلکہ چودہ سیاسی جماعتوں کی مشترکہ حکومت تھی اور اس دور میں جتنے فیصلے ہوئے اس کی ذمہ داری کسی ایک نہیں سب جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب نواز شریف آ رہے ہیں، اللہ کرے عوام اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے۔ قید و بند سے تو نواز شریف ڈرنے والا نہیں، وہ بہت کٹھن مراحل میں بھی چٹان کی طرح کھڑا رہا ہے۔ وہ اگر ملک کے وزیر اعظم بنتے ہیں تو اس کے فوراً بعد تو نہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد عوام بہت سی خوشخبریاں سنیں گے، ملک کی ترقی کی جانب گامزن ہوگا، عوام کیلئے آسانیاں پیدا ہوں گی اور ترقی و خوشحالی کا وہ قافلہ ازسر نو وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کرے گا جہاں زبردستی اس کا اختتام کیا گیا تھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔