12 جنوری ، 2013
کراچی…محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار” واشنگٹن پوسٹ“ لکھتا ہے کہ حالیہ ڈرون حملوں میں تیزی پراب پاکستانی حکومت عوامی سطح پر احتجاج نہیں کرتی،حالیہ ڈرون حملوں میں سویلین ہلاکتیں 2012ء کی مجموعی شہری ہلاکتوں سے زیادہ ہیں۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں تیزی کا مقصد افغان حکومت کے مخالفین کو کمز ور کرنا ہے ،اس کے ساتھ القاعدہ سمیت دیگر گروپوں پر واضح کرنا ہے کہ امریکا 2014ء میں افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی ان کے لئے خطرہ بنا رہے گا۔ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے2013کا آغاز پاکستان میں ڈرون حملوں کی بارش سے کیا۔گزشتہ برس اوسطاً ہر ہفتے بعد ایک حملہ کیا گیا۔موجوہ اور سابق امریکی انٹیلی جنس حکام کے مطابق ان حملوں میں تیزی اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ اوباما جلد افغانستان سے انخلاء کا حکم دیں گے اور 2014ء کے بعد افغانستان میں صرف چھ ہزار امریکی فوجی رہ جائیں گے۔ان حملوں کا مقصد افغان حکومت کے مخالفین کو کمزور کرنا ہے۔سی آئی اے کے مسلسل حملے القاعدہ کے علاوہ ان گروپوں کے لئے اشارہ ہیں کہ امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرونز اہم ہتھیار ہوں گے۔ سابق انٹیلی جنس حکام کے مطابق سی آئی اے افغانستان میں اپنے پندرہ فوجی اڈوں کے نیٹ ورک میں کمی کرکے صرف پانچ رکھنے کی منصوبے پر غور کر رہی ہے کیونکہ امریکی فوجیوں کے جانے کے بعدان کو سیکورٹی فراہم کرنے میں مشکلات ہوں گی،تاہم سی آئی اے نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سابق انٹیلی جنس عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی صور ت پر اخبار کو بتایا کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے ساتھ ہی سی آئی اے بھی چلی جائے گی۔کیونکہ مشرقی سرحدوں پر کیمپ قائم کرکے مخبری کے نیٹ ورک چلانا اور القاعدہ اور طالبان کے متعلق معلومات اکھٹی کرنا خطرناک ہے۔اس طرح کے اقدامات سے ڈرون کے لئے تازہ اہداف کی نشان دہی کے عمل کو سست بنا سکتے ہیں۔تاہم ڈرونز سے کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔ امریکی حکام کی حامد کرزئی سے مذاکرات میں سی آئی اے کے بیس منصوبے کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ سی آئی اے کے ترجمان نے کرزئی کے ساتھ ملاقات کی تصدیق سے انکار کردیا۔