26 اکتوبر ، 2023
الیکشن کمیشن نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد رپورٹ جمع کرادی ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ریاست مخالف جماعت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر وزارت داخلہ سے رپورٹ مانگی تھی، وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ٹی ایل پی کے فنڈنگ ذرائع کا بھی جائزہ لیا گیا، اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ کے مطابق ٹی ایل پی کو 15 لاکھ روپے ممنوعہ ذرائع سے ملے جو کہ اس کے لیے آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہےکہ تحریک لبیک کو وصول ہونے والی چھوٹی رقم کو غیر ملکی فنڈنگ قرار نہیں دیا جاسکتا، انکوائری کے بعد تحریک لبیک کے خلاف نوٹس واپس لے لیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کردیا ہے، الیکشن کمیشن کو اپنی آئینی ذمہ داریوں کا مکمل ادارک ہے۔
خیال رہےکہ 28 ستمبر کی سماعت میں سپریم کورٹ نے فریقین کو 27 اکتوبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، کیس کی سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔
یاد رہے کہ آئینی ترمیم الیکشن بل 2017 میں حلف نامے کے الفاظ کو تبدیل کیے جانے پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 22 روز تک دھرنا دیا گیا تھا، مظاہرین کے خلاف ایک آپریشن بھی کیا گیا، جس کے بعد ایک معاہدے کے بعد دھرنا اختتام پذیر ہوا، مظاہرین کے مطالبے کے بعد اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، اس دھرنے میں اسلام آباد پولیس کا کُل خرچہ 19 کروڑ 55 لاکھ روپے آیا جب کہ میٹرو اسٹیشن کی توڑ پھوڑ اور بندش کے باعث قومی خزانے کو 6 کروڑ 60 لاکھ روپےکا نقصان بھی ہوا جس کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
اس وقت کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس مشیر عالم پر مبنی دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔ دو رکنی بینچ نے 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ریاست کو غیر جانبدار اور منصفانہ ہونا چاہیے، قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اداروں میں، آزادانہ کام کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ یا ایجنسی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے، کسی بھی ایجنسی یا ادارے کو آزادی اظہار پر پابندی لگانے، ٹی وی نشریات، اخبارات کی اشاعت میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے خلاف آبزرویشن بھی دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ سانحہ 12 مئی پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی اور قتل، اقدام قتل میں ملوث حکومت میں شامل بڑے افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے بری مثال قائم ہوئی اور تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
فیصلے کے خلاف متاثرہ فریقین نے 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔
یاد رہےکہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلےکے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا۔