وہ عام غذائیں جو آپ کو ذیابیطس کا شکار بنا سکتی ہیں

ذیابیطس ٹائپ 2 موہودہ عہد کا عام ترین مرض ہے / فائل فوٹو
ذیابیطس ٹائپ 2 موہودہ عہد کا عام ترین مرض ہے / فائل فوٹو

ذیابیطس ٹائپ 2 وہ عام ترین دائمی مرض ہے جس سے صرف پاکستان میں ہی کروڑوں افراد متاثر ہیں۔

کچھ افراد میں جینز یا خاندانی تاریخ کے باعث ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ غذا اور جسمانی سرگرمیوں سے اس مرض سے بچنا ممکن ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں جاننا ضروری ہے کہ کونسی غذا کا استعمال ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

غذا اور ذیابیطس کے درمیان کیا تعلق ہے؟

جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم غذا میں موجود کاربوہائیڈریٹس کو گلوکوز میں تبدیل کرتا ہے تاکہ مختلف افعال کے لیے توانائی حاصل ہو سکے۔

جب یہ گلوکوز خون میں شامل ہوتی ہے تو بلڈ شوگر کی سطح بڑھتی ہے جسے معمول پر رکھنے کے لیے لبلبے سے انسولین نامی ایک ہارمون کا اخراج ہوتا ہے۔

مگر کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں بلڈ شوگر کی سطح بہت تیزی سے بڑھتی ہے اور بار بار ایسا ہونے لگے تو انسولین کی مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے یا آسان الفاظ میں انسولین کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ اس کی افادیت گھٹ جاتی ہے اور بلڈ شوگر کی سطح کنٹرول سے باہر ہونے لگتی ہے۔

اگر بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول نہ کیا جائے تو وقت کے ساتھ امراض قلب، بینائی سے محرومی، اعصاب اور اعضا کو نقصان پہنچنے سمیت دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اب یہ جان لیں کہ کونسی غذاؤں سے ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ویسے تو ہر وہ غذا ذیابیطس کا شکار بنا سکتی ہے جس سے جسمانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ موٹاپا ذیابیطس کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے۔

ریفائن کاربوہائیڈریٹس

متعدد غذاؤں میں ریفائن گندم یا سفید آٹے کا استعمال ہوتا ہے جس میں سے بھوسی کو نکال دیا جاتا ہے جس کے باعث فائبر کی مقدار بہت کم ہو جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سفید ڈبل روٹی، سفید چاول، پاستا، پیزا، چپس، کیک اور دیگر کو بہت زیادہ کھانے کی عادت ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار بنا سکتی ہے۔

زیادہ چکنائی یا چربی والی غذائیں

بہت زیادہ چربی یا چکنائی کے نتیجے میں انسولین کی مزاحمت کا خطرہ بڑھتا ہے اور جسمانی وزن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چربی والے گوشت، گھی، پنیر اور فل فیٹ ملک وغیرہ کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

چینی سے بنی غذائیں

ایسی تمام غذائیں جن میں چینی کا استعمال ہوتا ہے، انہیں کھانے سے جسم میں گلوکوز کی سطح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

کیک، بسکٹ، آئس کریم اور ایسی دیگر میٹھی غذاؤں کا زیادہ استعمال ذیابیطس ٹائپ 2 کا شکار بنا سکتا ہے۔

میٹھے مشروبات

سوڈا یا ہر طرح کے میٹھے مشروبات میں کیلوریز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جبکہ صحت کے لیے مفید اجزا نہیں ہوتے۔

ان مشروبات کو پینے سے بلڈ شوگر کی سطح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ محض ایک سافٹ ڈرنک کا روزانہ استعمال ہی ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ 25 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔

تلی ہوئی غذائیں

تلی ہوئی غذاؤں میں چکنائی بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے جسمانی وزن، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ تینوں ہی ذیابیطس کا خطرہ بڑھانے والے اہم عناصر ہیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر ہفتے 4 سے 6 بار تلی ہوئی غذاؤں کو کھانے سے ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

اسی طرح اگر روزانہ تلی ہوئی غذاؤں کا استعمال کیا جائے تو ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ 55 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

الٹرا پراسیس غذائیں

الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال بھی ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

الٹرا پراسیس غذاؤں میں ڈبل روٹی، فاسٹ فوڈز، مٹھائیاں، ٹافیاں، کیک، نمکین اشیا، بریک فاسٹ سیریلز، چکن اور فش نگٹس، انسٹنٹ نوڈلز، میٹھے مشروبات اور سوڈا وغیرہ شامل ہیں۔

ان غذاؤں میں چینی، کیلوریز اور چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جن کے نقصانات کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

نمک بھی نقصان دہ

زیادہ میٹھا ہی نہیں نمکین غذاؤں کا شوق بھی ذیابیطس کا شکار بنا سکتا ہے۔

نومبر 2023 میں امریکا کی Tulane یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا کے اوپر نمک چھڑکنے کے عادی افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق کبھی کبھار غذاؤں پر اوپر سے نمک چھڑکنے سے ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ 13 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

اسی طرح اکثر نمک چھڑکنے سے 20 جبکہ ہر بار اضافی نمک کے استعمال سے ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

اضافی نمک کا استعمال کرنے والے بیشتر افراد کھانا بھی زیادہ مقدار میں کھاتے ہیں، جس سے موٹاپے اور ورم کا خطرہ بڑھتا ہے۔

یہ دونوں ہی ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بڑھانے والے اہم عناصر ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :