03 دسمبر ، 2023
اسلام آ باد: الیکٹورل کالج مکمل نہ ہونے کے باعث پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کا تمام پراسیس مشکوک ہو گیا، حیران کن، دلچسپ الیکشن میں نہ کا غذات نامزدگی چھپوائے گئے نہ ووٹرز لسٹ اور نہ امیدواروں کو لڑنے کا موقع ملا۔
پی ٹی آئی کے ایک وکیل رہنما نے نما ئندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے والوں کو عدالت میں شر مندگی اٹھانا پڑے گی، آئین کی پاسداری نہیں کی گئی، پی ٹی آئی کی جانب سے ہفتہ کے روز عجلت میں کرائے گئے انٹر ا پارٹی الیکشن نے اس کی آئینی اور جمہوری حیثیت کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے۔
حیران کن اور دلچسپ انداز میں منعقد کرائے گئے، پارٹی الیکشن میں ناصرف بیرسٹر گوہر علی خان کو بلامقابلہ چیئر مین منتخب ہوئے بلکہ دیگر تمام عہد یدار بھی بلا مقا بلہ منتخب قرار دیدیے گئے۔
نتائج کا اعلان چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے کیا، علی امین گنڈا پور کو کے پی کا صدر اور عمر ایوب کو مرکزی سیکر ٹری جنرل منتخب قرار دیاگیا جو اس وقت زیر زمین ہیں اور پارٹی الیکشن لڑنے کیلئے دستیاب ہی نہیں جبکہ الیکشن لڑنے کے خواہش مندوں کو موقع ہی فرا ہم نہیں کیا گیا۔
پارٹی کے آئین کے تحت منتخب نیشنل کونسل نے انتخاب کرنا تھا مگر اس کا کوئی با ضابطہ اجلاس ہی منعقد نہیں ہوا، محض رسمی کارروائی کی گئی کیونکہ نیشنل کونسل کا انتخاب ہی طویل عرصہ سے نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی کوئی فہرست جاری کی گئی۔
کاغذات نا مزدگی نہ ویب سائٹ پر دستیاب تھے نہ ہی پارٹی سیکر ٹریٹ میں دستیاب تھے، مروجہ طریقہ کار کے تحت امیدوار کا غذ ات نامز دگی جمع کراتے ہیں، الیکشن کمشنر انہیں مسترد یا منظو ر کرتا ہے، اعتراضات وصول کیے جاتے ہیں جس کے بعد حتمی فہرست جاری کی جا تی ہے، اس کے بعد امیدوار وں میں مقابلہ ہوتا ہے یا کوئی امیدوار مقابلہ سے دستبر دار ہوتا ہے لیکن یہ الیکشن ایسے آ نا ً فاناً ماحول میں ہوئے کہ تمام مراحل کو بلڈوز کر دیاگیا، کھلی مسابقت کے مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔
پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس ابرکاغذات نامزدگی لینے اور ووٹرز لسٹ کیلئے پارٹی سیکرٹریٹ گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے پاس نہ کاغذات نامزدگی ہیں اور نہ دیگر معلومات ہیں۔ ٹیکسلا کے بانی رکن رانا بلال ‘ میا نوالی کے سعید اللہ نیازی اور صوابی کے یوسف علی بھی الیکشن لڑنے کے خو اہش مند تھے۔
چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے انتہائی قلیل وقت میں رسمی کارروائی پوری کیے بغیر بلا مقابلہ امیدواروں کےانتخاب کا اعلان کر دیا، نہ بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے نہ کاغذات نامزدگی، نہ ووٹرز لسٹ تیار کی گئی اور نہ پر یزائیڈنگ افسر کا تقرر کیا گیا۔ نہ کسی کو پولنگ ایجنٹ بنانےکا موقع دیاگیا۔
اکبر ایس با بر نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ قبول ہے قبول ہے نکاح میں تو سنا تھا آج الیکشن میں بھی سن لیا۔ انہوں نے ان الیکشن کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہےاور اسے سلیکشن قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہا کہ نٹرا پارٹی الیکشن جس انداز میں کرائے گئے وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے منافی ہے، ہم نے جب پینل بنایا تو انٹرا پارٹی الیکشن میں سلیکشن کر لی گئی۔
شاہد رند نے کہا ہم 1996 سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں، آج رہنما پارٹی چھوڑنے کی پریس کانفرنسز کر رہے ہیں، پی ٹی آئی دور حکومت میں اقتدار کے مزے لینے والے آج دوسری پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں، ہم اس دور میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پی ٹی آئی بانی رکن شاہد رند نے کہا پی ٹی آئی چیئرمین کی "الیکٹ ایبلز" کی سیاست پاکستان اور عوام نے دیکھ لی، پارٹی کے بانی اراکین کی جانب سے اگر ان الیکشن کو اعلان کے مطابق چیلنج کیا گیا تو پی ٹی آئی کیلئے با دی النظر میں ان الیکشن کا آئینی جواز ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا اور پارٹی کسی نئے امتحان سے دو چار ہوسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک وکیل رہنما نے نما ئندہ جنگ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اگرچہ بیرسٹر گوہر علی خان سمیت پارٹی عہدوں کے بلا مقابلہ الیکشن پر پارٹی قیادت خو ش ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے انٹرا پارٹی الیکشن میں پارٹی آئین اور الیکشن قواعد کی پیروی کی ہے جس میں بلا مقابلہ انتخاب کی شق موجود ہے مگر انہیں اس وقت شرمندگی اٹھانا پڑے گی جب یہ معاملہ قانون کی عدالت میں جا ئے گا جہاں ان کیلئے یہ ثابت کرنا مشکل ہو جا ئے گا کہ انہوں نے الیکٹو رل کالج پو را کیوں نہیں کیا۔
نوٹ: یہ خبر آج 3 دسمبر 2023 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے