بلاگ
Time 20 دسمبر ، 2023

آرمی چیف کا دورہ امریکہ

فوٹو فائل
فوٹو فائل

پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات مستقل طور پر قائم رہتے ہیں اور اگر کہیں پاکستان کی سویلین حکومت اور امریکہ کے مابین کوئی مسئلہ بھی درآئے تو بھی جی ایچ کیو اور پینٹاگون اپنے روابط پر اس کا اثر نہیں پڑنے دیتے ، وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے سیکورٹی کے معاملات پر تعلقات بہت گہرے ہیں اور کوئی بھی ان میں کسی تعطل کو اپنے مفاد میں نہیں گردانتا ۔ 

جنرل عاصم منیر ان حالات میں اپنے پہلے دورہ امریکہ پر بطور آرمی چیف گئے جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات تو بحال ہیں مگر ان تعلقات کیلئے مستقبل کا کیا منظر نامہ ہوگا، واضح نہیں ہے ۔ 

پاکستان اور امریکہ کے درمیان عشروں سے تعلقات کا محور افغانستان کی صورت حال رہی مگر اب امریکہ کےافغانستان سےانخلاکے بعد یہ بنیاد سردست اپنا اثر کھو چکی ہے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ اب دوبارہ اس بنیاد پر کوئی عمارت تعمیر بھی مت ہو اور امریکہ بھی پاکستان سے اپنے تعلقات کو اب صرف سیکورٹی کےنقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ وہ کاروباری تعلقات کو وہ اس میں غالب رکھنا چاہتا ہے۔

 آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کے معاشی معاملات پر گفتگو کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ۔ آرمی چیف وطن عزیز کی معاشی ترقی کیلئے براہ راست دلچسپی لے رہے ہیں اس لئے ان سے ان موضوعات پر بات ہونا توقع کے عين مطابق ہے ۔

گزشتہ پانچ چھ برسوں میں پاکستان کی معیشت جس زبوں حالی کا شکار ہوئی اس کے ازالہ کیلئے بائیڈن انتظامیہ پاکستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کی پالیسی کو اپنانا چاہتی ہے مگر پاکستانی معیشت کے غیر یقینی حالات کی وجہ سے وہ تذبذب کا بھی شکار ہے۔ شنید ہے کہ امریکی حکام نے آرمی چیف کے سامنے یہ مؤقف دوہرایا ہوگا کہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان کو چین کی جانب سے زبردست تجارتی خسارے کا سامنا بلکہ پاکستان میں دولت کی کمی اسی سبب سے ہو رہی ہے کہ سرمایہ کاروباری عدم توازن کے سبب سے چین منتقل ہو رہا ہے اور چین کی جانب سے اس عدم توازن کو ختم کرنےکی کوئی کوشش بھی نہیں کی جا رہی ۔ 

بی آر آئی کے فلیگ شپ منصوبے سی پیک کی وجہ سے پاکستان چین کیلئے فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا ہوا ہے حالانکہ بی آر آئی ویسے کامیابی کے جھنڈے بھی نہیں گاڑ سکا، جسکی چین کو توقع تھی۔ امریکی حکام نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی کل ایکسپورٹس میں سے اکیس فیصد امریکہ کو ہوتی ہیں اور اس حجم کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے ۔

دوسرا اہم مسئلہ مستقل طور پر افغانستان کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کا ہے۔ امریکہ اور پاکستان ، دہشت گردی کے حوالے سے ایک مشترکہ اصولی نقطہ نظر رکھتے ہیں مگر افغانستان کے داخلی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے دونوں کے نقطہ نظر یا یوں کہہ لیجئے کے مفادات میں ایک فرق واضح طور پر موجود ہے۔

پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی سے سخت پریشان ہے اور جائز طور پر سمجھتا ہے کہ افغان طالبان اس حوالے سے پاکستانی مفادات کو ، پریشانی کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے اور اس حوالے سے پاکستان کو امریکی حمایت درکار ہے مگر امریکہ کا مسئلہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی نہیں اور نہ ہی اُس کو اِس کی کارروائیوں سے کوئی پریشانی ہے۔

 امریکہ کو افغانستان میں مسئلہ’’دولت اسلامیہ ولایت خراسان‘‘ سے ہے ،جس کو ہم داعش خراسان کے نام سے جانتے ہیں اور امریکی انتظامیہ میں یہ تصور تیزی سے راسخ ہوتا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت داعش خراسان کے خلاف بہت مؤثر کارروائی کر رہی ہے اور افغان طالبان حکومت امریکہ کو شکایت کاکوئی موقع فراہم نہیںکر رہی ۔ پاکستان کیلئے صورت حال اس سےبالکل برعکس ہے ہماری شکایات پر کابل میں کوئی کان دھرنے کو سرے سے تیار ہی نہیں دکھائی دیتا ہے ان کا ازالہ تو بہت دور کی بات ہے اور اس دورہ میں آرمی چیف اس حوالے سے مشترکہ مفادات ،جو مشترکہ حکمت عملی سے حاصل کئے جائیں، کی کوشش کرتے محسوس ہوئے ۔

امریکہ کو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم شہریوں کی ان کےملک واپس روانگی کی حکمت عملی سے بھی اختلاف ہے ۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کوئی جمہوری طور پر منتخب ہو کر نہیں آئے، جو ان پر ایسی حکمت عملی اختیار کرنے سے کوئی عوامی دباؤ ہوگا ،دوئم جن افغان شہریوں نے امریکہ کی مدد کی تھی ان پر اس’’افغانستان واپسی‘‘ حکمت عملی کا اثر نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ اس سے دنیا میں یہ تاثر قائم ہوگا کہ امریکہ اپنے دوستوں کا تحفظ نہیں کر سکا ہے۔

خبر یہ بھی ہے کہ امریکہ نے’’کچھ معاملات‘‘پر دوبارہ سے مدد کرنے کی پیش کش کی ہے اور اس کی اس پیش کش کو قبول کرنے کے کیا اثرات پاکستان میں مقامی سطح پر ہو سکتے ہیں اس کا پاکستانی حکام کی جانب سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ 

فلسطين کے تازہ المیہ میں پاکستان کا ایک اصولی مؤقف ہے اور پاکستان اس حوالے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکمت عملی کا بھی بنظر غائر جائزہ لے رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھارتی رویے کی وجہ سے بھی پریشان ہے اور پاکستان کا یہ خیال ہے کہ اس میں اس کو امریکی حمایت حاصل ہے اور اس رویے پر امریکہ کو نظر ثانی کرنی چاہئے کیوں کہ اس میں صرف پاکستان کیلئے مسائل نہیں، بلکہ ایک ہی ٹوکری میں تمام انڈے رکھنے کا تصور کسی وقت بھی اور کسی کیلئے بھی،کسی نقصان کا باعث بن سکتا ہے، اب امریکی یہ سب سمجھ سکے گا یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں اس کا رويہ کرے گا ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔