آخر کس نے یکم جنوری کو نئے سال کا پہلا دن بنایا؟

اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے / فائل فوٹو
اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے / فائل فوٹو

دنیا بھر میں یکم جنوری کو نئے سال کا استقبال کیا جاتا ہے مگر کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایسا مارچ میں ہوتا تو پھر؟

یقین کرنا مشکل ہوگا مگر ایسا بالکل ممکن تھا اگر کیلنڈر کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔

جی ہاں 738 قبل مسیح میں قدیم رومی باشندے 10 مہینے کے کیلنڈر کا استعمال کرتے تھے اور سال کا آغاز مارچ سے ہوتا تھا۔

قدیم یونان میں بھی سال 10 مہینوں پر مشتمل ہوتا تھا اور اسی کو کو رومی سلطنت میں اپنایا گیا تھا۔

700 قبل مسیح میں نیا کیلنڈر متعارف کرایا گیا جس میں جنوری اور فروری کے مہینوں کا اضافہ کیا گیا۔

اس کیلنڈ میں جنوری کو سال کا پہلا اور فروری کو سال کا آخری مہینہ قرار دیا گیا اور یہ سلسلہ 424 قبل مسیح تک برقرار رہا۔

اس عہد میں فروری کو سال کا دوسرا مہینہ بنا دیا گیا۔

مگر وہ رومی کیلنڈر چاند پر مبنی تھا یعنی موجودہ اسلامی سال کی طرح، تو سال کا آغاز آگے پیچھے ہوتا رہتا تھا۔

جب جولیس سیزر نے 46 قبل مسیح میں روم کی حکومت سنبھالی تو انہوں نے شمسی کیلنڈر کو متعارف کرایا۔

اسے جولین کیلنڈر کا نام دیا گیا اور یکم جنوری کو نئے سال کا آغاز قرار دیا گیا۔

اس کیلنڈر میں ہر 4 سال بعد ایک اضافی دن شامل کیا جاتا تھا جسے اب لیپ ائیر کا جاتا تھا جیسا 2024 ہے۔

اس کیلنڈر کو یورپ کے ان تمام حصوں میں اپنالیا گیا جہاں رومی سلطنت نے قبضہ کیا مگر نئے سال کا آغاز ہر جگہ ایک جیسا نہیں تھا۔

قرون وسطیٰ کے یورپ میں کرسمس کے دن کو ہی نئے سال کا آغاز سمجھا جاتا تھا، جبکہ کچھ ممالک میں 25 مارچ کو نیا سال شروع ہوتا تھا۔

جولین کیلنڈر میں ایک خامی تھی اور یہ 365 دن اور 6 گھنٹے طویل ہوتا تھا مگر 11 منٹ کا فرق تھا۔

یہی وجہ ہے کہ 1570 کی دہائی میں پوپ گریگوری نے نئے کیلنڈر کو تشکیل دیا جس میں سے 10 دن غائب کردیے گئے۔

گریگوری کیلنڈر میں باضابطہ طور پر یکم جنوری کو نئے سال کا آغاز قرار دیا گیا۔

بتدریج اس کیلنڈر کو دنیا کے زیادہ تر حصوں نے تسلیم کرلیا، یہاں تک کہ ان اسلامی ممالک میں بھی جہاں ہجری کیلنڈر کو استعمال کیا جاتا ہے۔

گریگوری کیلنڈر کو بین الاقوامی کیلنڈر کے طور پر کاروباری مقاصد کے لیے اپنایا گیا۔

مزید خبریں :