بلاگ
Time 08 جنوری ، 2024

تنویر احمد : پاکستان کے قابل فخر ہیرو

پاکستان کو ان جیسے ہیروز پر فخر ہے، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کے اس ایک جملے نے امریکن پاکستانی تنویر احمد کو سب کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

آرمی چیف کے دسمبر میں دورہ امریکا کے موقع پر واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا جس میں کئی اہم امریکن پاکستانی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔

امریکن پاکستانیوں کے اپنے آبائی وطن اور مختلف ممالک میں غیرمعمولی کردار کو سراہتے ہوئے آرمی چیف نے انہیں ملک کا سفیر قرار دیا۔ وہ فرداً فرداً ہر شخصیت سے ملے اوران کی پیشہ ورانہ خدمات کو سراہا تاہم صرف تنویر احمد کو خصوصی طورپر اسٹیج پر بلایا اور ان کے لیے غیرمعمولی تعریفی کلمات کہے۔

اس تقریب نے اوورسیز کمیونٹی اور پاکستان میں بھی اس بحث کو جنم دیا کہ آیا تنویر احمد ہی میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو تنویر احمد کی جانب سے 9 ملین ڈالر دینا اس کی بنیاد بنا یا پھر بزنس کے میدان میں کم عرصے میں غیرمعمولی ترقی اس کی وجہ بنی؟

تقریب کے میزبان سفیر پاکستان مسعود خان تھے، جنہوں نے جیونیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تنویر احمد کامیاب انٹریپرینیور اور کمیونٹی کے عظیم لیڈر ہیں، انہوں نے اپنے مادروطن کی بھی غیرمعمولی خدمت کی ہے۔

تنویر احمد : پاکستان کے قابل فخر ہیرو

تنویر احمد کو کراچی میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے والے گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں پاکستان کو ترقی دینے سے متعلق تنویر احمد کا وژن انتہائی قابل ستائش ہے، انہوں نے غیرمعمولی رقم عطیہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ انگریزی محاورے واک دا ٹاک ،یعنی جو کہو اس پر عمل کرو، پر یقین رکھتے ہیں۔

اس سوال پر کہ آئی ٹی ٹاوربنانے کےلیے رقم عطیہ کرنیوالے تنویر احمد کو حقیقی ہیرو کیوں تصور کرنا چاہیے،نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ریکٹر لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید محمود بخاری نے کہا کہ نسٹ آئی ٹی کمپلیکس بزنس اور جدت کا مرکز بن کر ابھرے گا، یہ آنٹریپرینیورشپ کو تیزی سے بڑھانے کا سبب بنے گاجس سے خطے کی اقتصادی نمو میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔

جنرل ریٹائرڈ جاوید بخاری کے یہ الفاظ اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ خود انہوں نے ملٹری کالج رسالپورسے انجینئرنگ اور برطانیہ کی کرینفیلڈ یونیورسٹی سے ڈیفنس ٹیکنالوجی میں ماسٹرزکیا تھا، یہی نہیں وہ نہ صرف کرنل کمانڈنٹ کورآف انجینئرز رہ چکے ہیں بلکہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی ایبٹ آباد سے بھی وابستہ رہے ہیں۔

کیلی فورنیا میں پاکستان کے قونصل جنرل عاصم علی خان نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی امریکنز کو تنویر احمد جیسی متاثر کن شخصیات کے نقش قدم پر چلنا چاہیے جنہوں نے انتہائی سخت چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے نہ صرف خود کو مضبوط پیروں پر کھڑا کیا بلکہ وطن کی بھی فراغ دلانہ انداز سے خدمت میں مصروف ہیں۔

تنویر احمد کون ہیں؟

سیالکوٹ کے نواحی قصبے میں کسان محمد وارث کے گھر پیدا ہونے والے تنویر احمد کا بچپن سے جوانی تک کا سفر ایک عام پسماندہ گھرانے کے اکثر بچوں جیسا تھا۔

محمد وارث کو یقین تھا کہ صرف تعلیم ہی انکی زندگی پھیر سکتی ہے۔ یہی سوچ کرانہوں نے سب سے بڑے بیٹے تنویر کو علاقے کے بہترین نجی اسکول میں داخل کرایا، تاہم ہر گزرتے روز یہ امر مشکل ترین ہوتا گیا۔

نوبت یہ تھی کہ تنویر کے پاس یا تو اسکول جانے کے لیے بس کا کرایہ ہوتا یا چند میل پیدل چل کر لنچ کے پیسے۔گھر واپسی پر دس برس کا یہ بچہ علاقے میں وہ سبزیاں بیچتا جو اسکے والد اُگایا کرتے تھے۔

جلد ہی تنویر کو انداز ہوگیا کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد تعلیم جاری رکھنا بوڑھے والد پر اضافی بوجھ ہوگا۔انہوں نے تعلیم کو خیرباد کہا اور ماموں عبدالطیف کے پاس لندن جانے کی ٹھانی جو ایک عرصے سے برطانیہ میں مقیم تھے۔

انہی کے مشورے پر تنویر نے خیال بدلا اور امریکا کا رخت سفر باندھا۔ اُدھار رقم سے لیا گیا جہاز کا ٹکٹ اور23 ڈالر جیب میں لیے تنویر احمد ساڑھے18 برس کی عمر میں نیویارک شہر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ یہاں گزارہ نہیں ہوگا۔ کسی نہ کسی طرح کیلی فورنیا کے شہر سیکرامینٹو اور پھر بلآخر سان فرانسسکو میں پیٹرول اسٹیشنز اور دیسی ریستورانوں پر کام ڈھونڈا۔

یہ 1988کا زمانہ تھا، امریکی معیشت میں بہتری کے آثار اور ملازمتوں کے مواقع تھے۔ اگلے ہی برس تنویر کو جیک ان دا باکس میں شفٹ انچارج کی ملازمت ملی تو زندگی کسی ڈگر پرآنے کے آثار ہوئے۔

تنویر احمد نے سوچا کہ کسی طرح اس آؤٹ لیٹ کی آمدنی اتنی بڑھائی جائے کہ نہ صرف نوکری پکی ہو بلکہ ترقی کے امکانات بھی بڑھیں۔ نیت صاف، منزل آسان کے مصداق ہوا اور اگلے چند ماہ ہی میں تنویر احمد کو ریجنل مینجیرپھر ایریا منیجر بنادیا گیا، علاقے میں دیگر فوڈ چینز کو ترقی کرتا دیکھ کر ٹاکو بیل جیسے ادارے نے انہیں جنرل منیجر کی پیشکش کردی۔ تنویر احمد کی ترقی کا اصل سفر یہیں سے شروع ہوا۔

زندگی کا اہم ترین موڑ

تنویر احمد کی زندگی کسی کرشمے سے نہیں بدلی۔

ٹیکساس میں پاکستان کے قونصل جنرل آفتاب چوہدری کے مطابق تنویر احمد کی کہانی ایک خواب کو سخت محنت، عزم اور لگن کے زریعے حقیقت میں تبدیل کرنے سے متعلق ہے۔

آٹھ برسوں میں تنویر احمد نے کورئیر کمپنی میں چیف فنانشل آفیسر کا عہدہ سنبھالا، وہ بنکنگ سیکٹر میں بھی فعال ہوئے اور رقوم کی منتقلی کا عمل تیز تر بنانے میں قابل ذکر کردار ادا کیا۔ یہ اقدام انہیں امریکی فیڈرل ریزرو(اسٹیٹ بنک) کے وائس چیئرمین سے ملاقاتوں ، اپنے کاروبار کو وسعت دینے اور مڈل کلاس میں داخل کرنے کا ذریعہ بن گیا۔

امریکا کے صف اول کے اقتصادی ماہرین سے قریبی تعلق نے تنویر احمد کو احساس دلایا کہ الیکٹرانک بینکنگ کی وجہ سے انکا اس سیکٹر سے جڑا کورئیر کاروبار زیادہ عرصے پھل پھول نہیں سکے گا۔

حالات کی نزاکت جانتے ہوئے تنویر احمد نے صورتحال کا جائزہ لیا، اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نظر ڈالی اور فیصلہ کیا کہ ایک بار پھر اسی فوڈ بزنس سے جڑا جائے جو نکتہ آغاز تھا۔ اس فیصلے نے انکی زندگی پلٹ دی۔

تنویر احمد نے جن فوڈ چینز میں کام کیا تھا، انہی کے اعلیٰ ترین افسروں سے رابطہ کیا اور فرنچائز حاصل کرکے مختلف ریاستوں میں کھولنے کی درخواست دی۔

بحیثیت سابق ملازم انکی ساکھ کام آئی اور آج ریاست ایری زونا، کولراڈو، نیواڈا اور ٹیکساس میں انکے153آوٹ لیٹس ہیں جن میں 5 ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔اسی بزنس نے انہیں امریکا میں فاسٹ فوڈ فرنچائز کے مالکان میں سے ایک بنا دیا۔

اب تنویر احمد نےایک کے بعد دوسرے بزنس میں ہاتھ ڈالا۔محنتی ہاتھوں سے مٹی سونا بنتی چلی گئی۔انہوں نے انشورنس کمپنیاں کھولیں، انرجی پروڈکشن شروع کی تو ٹیکساس، کنے ٹی کٹ، پنسلوینیا اور الی نوائے جیسی ریاستوں میں کاروبار کو بڑھایا۔

ان کے نزدیک کاروبار میں کامیابی کا راز ناپ تول کر قدم بہ قدم چلنا، ٹھوس منصوبہ بندی اورمتفرق بزنسز سے وابستگی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ یا تو ایک ہی صنعت کی مختلف جہتوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ نفع کے امکانات بڑھیں ورنہ بڑے نقصان سےبچنے کے لیے مختلف صنعتوں میں طبع آزمائی کی جانی چاہیے تاکہ صرف سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ رہیں۔ تنویر احمد کی پوری زندگی اسی فلسفہ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

کاروبار میں کامیابی کے بعد تنویر احمد نے اپنے بچپن کا خواب پورا کرنے ٹھانی۔ یہ وہ کام تھا جس نے انہیں عالمی شناخت بھی دی۔

2018 میں تنویر احمد نے امریکا میں سب سے بڑا کرکٹ کمپلیکس بنانے کااعلان کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ہیوسٹن شہر کے نواح میں چھیاسی ایکڑ زمین خریدی۔

کرکٹ کے شیدائی تنویر احمد چونکہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے فرسٹ کلاس کرکٹ تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔انہوں نے یہی موقع امریکا میں کرکٹ کے شوقین بچوں کو دینے کا بیڑا اٹھایا۔

کرکٹ امریکا میں اس قدر مقبول نہ سہی مگر یہ دنیا کا دوسرا بڑا مشہور کھیل ہے اور تیزی سے امریکا میں بھی نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنویر احمد کے کرکٹ کمپلیکس نے ہیوسٹن کو امریکا کے کرکٹ کیپیٹل میں تبدیل کردیا ہے۔

پچھلے سال جون میں اسی کمپلیکس میں ہیوسٹن اوپن ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں میجر لیگ کرکٹ اور انٹرنیشنل اسٹارز نے پرفارم کیا تھا۔اسٹیڈیم میں نہ صرف کرکٹ کھیلنے والے ممالک سے تعلق رکھنے والے امریکنز بلکہ مقامی افراد کی بھی بھرپور دلچسپی نظرآئی تھی۔

اس عرصے میں تنویر احمد نے امریکن پاکستانیوں اور اہل وطن کیلئے بھی کئی نمایاں کام کیے۔انہوں نے مختلف ریاستوں میں10 مساجد تعمیر کرائیں، کیلی فورنیا جیسی منہگی ریاست اور ورجینیا میں قبرستان بنوائے، سیالکوٹ میں لڑکیوں کا کالج اور انتہائی جدید مگر مفت ڈائلیسز سینٹر کھولا۔

سیلاب آیا توانہوں نے اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کیا، شیلاجیکسن، آل گرین اور ٹام سوزی جیسے اراکین کانگریس پرمشتمل وفد کو پاکستان لائے جنہوں نے امریکا کی جانب سے 30 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ تنویر احمد نے اس موقع پر اپنی جانب سے30 ملین روپے دیے۔

پاکستانی امریکن تاجر نے سیلاب ذدگان کیلئےماڈل ویلیج بنانے کی بھی پیشکش کی۔ منصوبہ یہ تھا کہ تمام ترسہولتوں کے حامل امریکی ویلیج کی طرز پر سندھ میں ہوبہو ویسا ہی ویلیج بنایا جائے جو امریکا اور پاکستان کے درمیان دوستی کی علامت بنے۔ سُرخ فیتہ آڑے آیا تو تنویر احمد نے ایک بڑی رقم سندھ اور بلوچستان میں سیلاب زدگان کے مکانات تعمیر کرنیوالوں کو عطیہ کردی۔

نسٹ کو غیرمعمولی عطیہ

ٹیکساس میں پاکستان کے قونصل جنرل محمد آفتاب چوہدری نے کہا کہ تنویر احمد کا وژن ہے کہ وہ مادر وطن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کی راہ ہموار کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگی میں بہتری لائیں۔

پچھلے سال جولائی میں تنویر احمد نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں آئی ٹی پارک ٹاور بنانے کے لیے 9  ملین ڈالر دینے کااعلان کیا۔

نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک ٹاور کا سنگ بنیاد اسی ماہ رکھا جارہا ہے۔ یہ منصوبہ 2025 میں مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس کے اگلے برس طالبعلموں کے پہلے گروپ کو داخلہ دیا جائے گا۔

تنویر احمد کی جانب سے عطیہ کی گئی رقم کا ایک حصہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے مستحق طلبہ کو میرٹ پر اسکالرشپ کی صورت میں دیا جائے گا تاکہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدید ترین تعلیم حاصل کرسکیں۔

تنویر احمد کی جانب سے عطیہ کی گئی رقم سے متعلق اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے نسٹ کے ریکٹر نے بتایا کہ یہ انفراسٹرکچرغیرملکی سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع فراہم کرے گا،اسٹارٹ اپس اور اسپن آف کا ذریعہ بنے گا اورنوجوانوں کیلئے ہائی ٹیک ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے گا۔

کیلی فورنیا میں پاکستان کے قونصل جنرل عاصم علی خان نے کہا کہ امریکن پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں پاکستان کو قدر آور ملک بنانے کیلئے تنویر احمد کی طرح آگے بڑھیں کیونکہ اس سے سماجی اور اقتصادی ترقی کے درکھلیں گے اور پاکستان کے کروڑوں نوجوانوں کو گلوبل نالج سپلائی چین کا حصہ بننے کا موقع ملے گا۔

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کے نزدیک تنویر احمد جیسے افرادنہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پسماندہ اور متوسط طبقے کے لیے رول ماڈل ہیں۔ وہ وطن کا سرمایہ ہیں کیونکہ انہوں نے زندگی کی سختیوں کا حوصلہ مندی سے مقابلہ کرکے لوگوں کو خود پربھروسے کا سبق دیا اور اب پسماندہ طلبہ کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کررہےہیں۔

حالیہ انٹرویو میں تنویر احمد نے کہا تھا کہ سبزی بیچنے والے بچے سے یہاں تک پہنچنے میں انہیں30 سال سے بھی زیادہ لگے مگرجو بچے اس ادارے سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں گریجویشن کریں گے، اگر وہ اپنی تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لائے اور نئی ٹیکنالوجی دنیا کو دی تو وہ3  برسوں میں ان سے کوسوں آگے نکلنے کے قابل ہوں گے۔

تنویر احمد کے اسی وژن کی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ستائش کی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ خود چیف آف آرمی اسٹاف نے اسی تقریب میں کہا تھا کہ ای کامرس کے میدان میں اترنے میں پاکستان کو لاکھ دیر ہوئی ہو، مصنوعی ذہانت کے شعبے میں پنجے گاڑھنے میں پاکستان کسی سے پیچھے نہیں رہے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔