10 جنوری ، 2024
اس کے سب ملنے والے کہتے ہیں کہ وہ ماضی کے سب لوگوں سے مختلف ہے۔ اخبار نویسوں کی اس تک براہ راست رسائی نہیں ہے بالواسطہ طور پر اس کے ملنے والوں کے تاثرات ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔
ابھی تک اسے براہ راست ملنے اور سننے کا اتفاق نہیں ہوا ہے مگر صحافیانہ تجسس مجبور کرتا ہے کہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانیں۔ اس بات کی کھوج لگائیں کہ اس کے خیالات کیا ہیں وہ کیساپاکستان چاہتا ہے؟ جنرل باجوہ سے تو شروع میں دو تین ملاقاتوں کا موقع مل گیا تھا چنانچہ میں نے باجوہ ڈاکٹرائن کے عنوان سے مضمون لکھ دیا تھا جس پر مجھے بعد میں بلاول بھٹو نے بتایا کہ وہ یہ مضمون پڑھ کر جنرل باجوہ کے عزائم جان گئے تھے اور 2018ء کی انتخابی مہم اسی مضمون کو سامنے رکھ کر چلاتے رہے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کےشائع ہونے کے اگلےروز تو اس وقت کی مقتدرہ بڑی خوش ہوئی لیکن دو تین روز بعد سے ایسی ناراض ہوئی کہ جنرل باجوہ کے باقی ساڑھے پانچ سال ان سے ایک بھی ملاقات ممکن نہ ہوسکی۔
ایک انتہائی اہم ذریعہ نے جنرل مشرف اور اس کا تقابل کرتے ہوئے بتایا کہ جس دن جنرل مشرف کو فوج کاسربراہ مقرر کیا گیا وہ انتہائی مشکورو ممنون تھے اور بار بار وزیراعظم سے پوچھتے تھے کہ مجھے کوئی حکم دیں۔ وزیراعظم نے انہیں کہا کہ صرف ایک بات کا خیال رکھیں کہ آپ اپوزیشن سے نہ ملیں کیونکہ جب فوجی سربراہ اپوزیشن سے ملتا ہے تو حکومت غیر مستحکم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
جنرل مشرف نے سرجھکا کر وعدہ کیا کہ وہ اپوزیشن سے بالکل نہیں ملیں گے مگر ایک ہی ماہ بعد خبرملی کہ وہ پہلے حامد ناصر چٹھہ سے ملے اور پھر انہوں نے خفیہ طور پر سیاسی اپوزیشن سے ملنا شروع کردیا۔ اسی ذریعہ نے بتایا کہ یہ اس لئے مختلف ہے کہ جب صدر علوی ’’اس‘‘ کی تقرری کے لئے عمران خان کے پاس لاہور آئے تو صدر علوی نے ’’اسے‘‘ فون کیا اور اطلاع دی کہ عمران خان نے آپ کی تقرری پر اتفاق کیا ہے پھر’’اسے‘‘ مبارکباد دی اور ساتھ ہی کہا کہ یہ لیں عمران خان سے بات کرلیں۔
’’اس ‘‘نے فوراً کہا کہ آپ تو صدر پاکستان ہیں آپ سے بات ہوسکتی ہے میں کسی سیاستدان سے بات نہیں کروں گا میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ اس ذریعے نے بتایا کہ اس مثال سے دونوں جرنیلوں میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔
ایک اور اہم ذریعہ نے بتایا کہ ’’وہ‘‘ ذاتی تشہیر سے گریزاں ہے کوئی اس کے ساتھ اپنی تصویر لگا دے تو اسے برا لگتا ہے اس نے اپنے رشتہ داروں کو بھی فری ہینڈ نہیں دیا بلکہ انہیں بھی کہتا ہے کہ کوئی مطالبہ نہ کرنا۔ اسے اپنے پرانے اور ذاتی دوستوں کی محفل پسند ہے، مشورے بھی انہی سے کرتا ہے۔
اہم ذریعہ نے جنرل راحیل شریف اور ’’اس‘‘ کا تقابل کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنرل راحیل شریف کو جنرل باجوہ درشنی جرنیل کہتے تھے جبکہ اس اہم ذریعہ نے انہیں بھولے بادشاہ قرار دیا جو بغیر کوئی جنگ لڑے فیلڈ مارشل بننے کے متمنی تھے۔ اس درشنی جنرل نے ایک بار ترنگ میں آ کر مارشل لا نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ٹرپل ون بریگیڈ کو مارچنگ آرڈر بھی دے دیئے۔ ابھی تک تین مختلف ذرائع اس آج تک خفیہ رہنے والی خبر کی تصدیق کر چکے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی تین حاضر سروس میجر جنرلز، بھولے بادشاہ کے پاس پہنچے اور اسے منت سماجت اور دلائل سے قائل کرکے اٹھے اورکہا کہ آپ یہ آرڈر واپس لیں جس پر انہوں نے یہ حکم واپس لے لیا مجھے اس میجر جنرل سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جوبعد میں لیفٹیننٹ جنرل بن گئے تھے اور ان تین میجر جنرلوں میں شامل تھے جنہوں نے جنرل راحیل شریف کو مارشل لا لگانے سے روکا تھا۔
ایک ذریعہ نے بتایا کہ دوسری طرف آج والے کا رویہ بالکل مختلف ہے ، کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اس کے مشیروں نے اسے کہا کہ اب بحران کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ یا تو پی سی او لگایا جائے یا پھر مارشل لا نافذ کیا جائے مگر اس نے ہر بار کہا ہےکہ THIS IS NOT AN OPTION (یہ آپشن تو ہے ہی نہیں)۔
اس کے ملاقاتی بتاتے ہیں کہ آج والا DODGY نہیں ہے وہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے جبکہ جنرل باجوہ کہتے کچھ تھے اور کرتے کچھ تھے۔ ایک ذریعہ نے مجھے بتایا تھا کہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے جنرل باجوہ تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے پورے پلان پر عمل پیرا تھے اور دوسری طرف الیکشن سے چند دن پہلے شہباز شریف سے ان کی ممکنہ کابینہ کے ناموں پر بحث کر رہے تھے یہاں تک کہا گیا کہ ڈار صاحب کو کابینہ میں شامل کریں گے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے؟جنرل باجوہ کے ارادے اور تھے اور وہ کہہ کچھ اور تھے۔
سیاسی ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاسی لیڈر جنرل باجوہ سے ملاقات کرتے تھے بھلی بھلی ملاقات ہوتی تھی میٹھی میٹھی باتیں ہوتی تھیں اور وہ سیاستدان دوسرے دن گھر پہنچتا تھا تو گرفتارہو جاتا تھا۔اسحاق ڈار نے مجھے لندن میں بتایا تھا کہ نوازشریف کی حکومت رخصت کرنے کےبعد بھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید تا دیر ان سے رابطے میں رہے اور وعدے کرتے رہے کہ ان کے خلاف مقدمات ختم ہو جائیں گے لیکن اندر ہی اندر وہ ہر وقت ان کےخلاف باتیں کرتے تھے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ’’وہ‘‘ صاف ،شفاف اور دیانتدار ہیں وہ جنرل گیانی کی طرح نہیں جن کےبھائیوں پر دولت سمیٹنے کے الزامات لگتے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کا فوکس معیشت کو راہ پر لانا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت کو ہٹانے کی غلطی سے ہی معیشت کا زوال شروع ہوا۔
آخر میں ماضی کے تجربوں کی روشنی میں ناقدانہ تبصرہ بھی ضروری ہے۔ دیانتداری کے حوالے سے جنرل یحییٰ خان کی یہ مثال دی جاتی ہے کہ ان کے پاس نئی گاڑی خریدنے کے پیسے تک نہیں تھے انہوں نے کوئی جائیداد نہیں بنائی لیکن انہوں نے حرص اقتدار میں ملک کو دولخت ہونے دیا ہم ان کی ایمانداری کو دیکھیں یا ان کے ناقص فیصلوں کو؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس وقت بھی فیصلے ہی دیکھنے چاہئے تھے اورآج والے کے بھی فیصلے ہی تاریخ میں اس کا مقام متعین کریں گے۔
ذاتی طور پر میری شروع سے رائے ہے کہ جمہوری اور آئینی اعتبار سے فوج کوسیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے مگر جنرل کیانی ہوں یا جنرل باجوہ یا پھر جنرل راحیل شریف سارے ہی پس پردہ سازشوں میں ملوث رہے۔ حمید گلوں، پاشوں اور ظہیر الاسلاموں سے سب کچھ کون کرواتا رہا؟ فیض حمید کا نشانہ کون کون بنا؟ آج پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عتاب کا شکار ہیں، تاریخ عمران خان سے تو ان کی غلطیوں کا حساب لے رہی ہے اور لیتی رہے گی لیکن یاد رکھیں کہ ’’اسے‘‘ بھی تاریخ میں اپنی غلطیوں پر جواب دینا ہوگا وہ لاکھ مختلف سہی، ’’وہ‘‘ ڈسپلن کا سو فیصد پابندسہی، اس کی دیانت مستند سہی، وہ مارشل لا کا مخالف سہی، وہ پاکستانی معیشت کو بہتر کرنے کا متمنی سہی لیکن اصل امتحان تو یہ ہے کہ جب وہ جائے گا تو پاکستان کل سے زیادہ متحد ہو گا یا تقسیم شدہ، کیا جب وہ رخصت ہوگا تو پاکستانی معیشت مضبوط ہوگی یا پہلے سے خراب اور سب سے آخری بات کہ کیا اس کے مخالف بھی اس کی خدمت کا اعتراف کریں گے یا نہیں؟؟۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔