جسٹس مظاہر کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفی

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج  جسٹس اعجاز الاحسن نے استعفیٰ دے دیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت عارف علوی کو بھجوا دیا ہے، استعفے کے متن کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن نےکہا ہے بطور سپریم کورٹ جج مزیدکام  جاری رکھنا نہیں چاہتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 206 شق (1) کے تحت فوری طور  پر مستعفی ہو رہا ہوں، بطور سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ جج کام کرنا میرے لیے باعث اعزاز  تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن کے استعفے کا عکس
جسٹس اعجازالاحسن کے استعفے کا عکس

جسٹس اعجازالاحسن سپریم کورٹ کی سنیارٹی میں تیسرے سینئر ترین جج تھے، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد رواں سال اکتوبر میں انہیں ملک کا آئندہ چیف جسٹس بننا تھا اور اگست 2025 میں ان کی ریٹائرمنٹ ہونا تھی۔

جسٹس سردار طارق مسعود جو کہ سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں، رواں سال مارچ میں  مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن کے استعفےکے بعد  اب جسٹس منصور علی شاہ  اگلے چیف جسٹس آف پاکستان بنیں گے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

سابق جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر  سماعت ہے جس میں ان پر اثاثوں سے متعلق الزامات ہیں جب کہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے دو  روز قبل سابق جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے اختلاف کیا تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے آج سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی اور  وہ سپریم جوڈیشل کونسل سے الگ ہوگئے جس کے بعد جسٹس منصور کو کونسل میں شامل کرلیا گیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے آج مستعفی جج مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو آگاہی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک اور موقع دیا ہے، کونسل کا کہنا ہےکہ مظاہر نقوی چاہیں تو کل پیش ہوکر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اپنی خدمت کے لیے نہیں بیٹھے، ہم یہاں اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنےکے لیے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ سمیت سب ادارے عوام کو جوابدہ ہیں، اگر یہ چیز سب سیکھ لیں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے، سوشل میڈیا اور میڈیا پر شور تھا کہ کیا ہم اتنے برے ہیں؟ سپریم کورٹ کی ساکھ بھی تو خطرے میں پڑی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جج نے استعفے میں لکھا کہ پبلک میں معاملات کی بنا پرکام جاری نہیں رکھ سکتے، استعفےسے تاثر ملتا ہے جیسے جج کو انصاف کی توقع نہیں تھی یا یہاں کوئی ڈریکونین سسٹم چل رہا ہے، اس معاملے کو دیکھنا ہوگا، معاملہ ہوا میں نہیں چھوڑ سکتےکہ جج نے استعفیٰ دے دیا۔

 جسٹس مظاہرکو دوسرے شوکاز پر جسٹس اعجاز الاحسن کا اختلافی نوٹ

سپریم جوڈیشل کونسل کے جسٹس  مظاہرنقوی کو  دوسرے شوکاز  پر  جسٹس اعجاز الاحسن  نے اختلافی  نوٹ بھی لکھا تھا جس میں انہوں نے شوکاز  واپس لینےکا مطالبہ کیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کونسل کی کارروائی روایات کے خلاف غیرضروری جلد بازی میں کی جا رہی ہے،  جسٹس مظاہر نقوی کےخلاف کارروائی قانونی تقاضوں کے بھی خلاف ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریفرنس فیصلےکی نفی ہے، کونسل کو اپنے آئینی اختیارات نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے چاہئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے معاملے میں غوروفکر کیا گیا اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی،  جسٹس مظاہر نقوی پر لگائےگئے الزامات بغیر ثبوت اور میرٹ کے خلاف ہیں،  زیادہ تر الزامات جائیداد یا ٹرانزیکشن سے متعلق ہیں،قانون کی نظر میں لگائے گئے الزامات برقرار نہیں رہ سکتے۔