بلاگ
Time 21 جنوری ، 2024

نااہلی ختم ۔ ’’بلا ‘‘چھن گیا

بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بینچ نے سیاست دانوں کی تاحیات نا اہلی ختم کردی ہے جب کہ عمران خان سے ’’بلا چھن‘‘ گیا ہے سپریم کورٹ کے ان دو فیصلوں پر سیاسی جماعتوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے نواز شریف مخالف سیاست دان اور تجزیہ کار نواز شریف کو اہل قرار دینے پر تنقید کر رہے ہیں لیکن کچھ عاقبت نا اندیش ’’ بلا ‘‘ چھن جانے پر توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں جس پر ان عناصر کی پکڑ دھکڑ کے لئے قانونی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔ 

سپریم کورٹ کے فیصلے سے براہ راست نواز شریف ہی فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ اس سے اڈیالہ جیل کا ’’سرکاری مہمان ‘‘ قیدی نمبر804بھی فائدہ اٹھائے گا جس سزا کا پاکستان کے آئین میں ذکر ہی نہیں ثاقب نثار کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت تا حیات نا اہل قرار دے دیا ان کو ملکی سیاست سے آئوٹ کرنے کے لئے ’’علاج ‘‘ کے لئے 4سال سے زائد بر طانیہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا بے شک انہیں لندن میں زندگی کی تمام سہولتیں ہی کیوں نہ فراہم کی جا رہی ہوں لیکن ایک سیاست دان کو جبراً ایک دن بھی عوام سے دور نہیں رکھا جا سکتا ۔ 

نواز شریف کا دل پاکستان میں ہی اٹکا رہا۔ نواز شریف کے مختلف حیلوں بہانوں سے دو بار 9 ،10سال جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے کی سزا دی گئی لیکن ان کو عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکا۔ آج چوتھی بار ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔یہ نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی ہے ۔ آج اس کا سب سے بڑا سیاسی مخالف جیل میں ہے جب کہ ان کی ’’تاج پوشی ‘‘ کے لئے اسٹیج سجایا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم ، آئی پی پی ، مسلم لیگ (ق) ، باپ ، جی ڈی اے اور جے یو آئی سے سیٹ ایڈجسٹ کرانے والوں کے پیش نظر نواز شریف کو عمران خان کی طرح ’’بے بس ‘‘ وزیر اعظم بنانا مقصود ہے۔

 اب دیکھنا یہ ہے نواز شریف آئین میں دئیے گئے اختیارات کا حامل وزیراعظم بننا پسند کرتے ہیں یا ’’تابع محمل ‘‘ وزیراعظم بن کرمحض وزارت عظمیٰ کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں گے۔ میں ذاتی طور نواز شریف کو جانتا ہوں کہ وہ ’’بے بس‘‘ وزیر اعظم بننا کبھی پسند نہیں کریں گے۔ ممکن ہےنواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی آخری اننگز کھیل رہے ہوں لہذا وہ مقتدرہ سے بنا کر رکھیں گے اور اگلے انتخاب میں پارٹی کی ’’کپتانی‘‘ اپنی ’’جارحانہ سیاسی سوچ‘‘ کی مالک اپنی صاحبزاد ی مریم نواز کے حوالے کردیں لیکن اس 40 سال کے سیاسی سفر میں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اس جماعت کے متعدد بانیان نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑدیا ہے ۔ کم و بیش اتنی ہی تعداد میں اپنے دیرینہ ساتھیوں کو اپنی کشتی سے اتر جانے پر مجبور کر دیا ۔

جب 1992میں اسلام آباد کی اہم سیاسی شخصیت حاجی نوا زکھو کھر کی رہائش گاہ پر صدر غلام اسحق خان کے تمام تر دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے راجہ محمد ظفر الحق، چوہدری نثار علی خان، حاجی نواز کھوکھر، صدیق کانجو، عبدالستار لالیکا، راجہ محمد افضل اور دیگر رہنمائوں نے مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی تھی آج اس کا ڈنکا بج رہا ہے لیکن اب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو واحد لیڈر راجہ محمد ظفر الحق ہی نظر آرہے ہیں جو تاحال مسلم لیگ سے وابستہ ہیں کچھ لیڈر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں جو زندہ رہ گئے ہیں ان میں ایک چوہدری نثار علی خان ہیں جن کو مسلم لیگ (ن) سے نکال دیا گیا یا خود انہوں نے اپنے لئے الگ راہ کا انتخاب کرلیا وہ اپنا دوسرا الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑ رہے ہیں نواز شریف نے ان کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے اپنے دشمنوں کو بھی سینے سے لگالیا ہے۔ 

سردار مہتاب احمد خان، جسٹس غوث علی شاہ ، الٰہی بخش سومر ،و مخدوم جاوید ہاشمی ، شاہد خاقان عباسی سمیت متعدد قد آور شخصیات نواز شریف کے قافلے سے بہت پیچھے رہ گئی ہیں ۔راجہ محمد ظفر الحق جنہوں نے پرویز مشرف کے مارشلائی دور میں مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا پہلے انہیں سینیٹ کی ٹکٹ نہ دی گئی پھر انہیں پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کا نمائشی رکن تک نہ بنایا گیا وہ نواز شریف کے پاس اپنے صاحبزادے راجہ محمد علی جو دوبار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں کے ٹکٹ کے حصول کے لئے بھی گئے لیکن راجہ محمد علی کو نظر انداز کر دیا گیا کچھ ایسی ہی صورت حال چوہدری ریا ض(جوقومی و صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں )کے ساتھ پیش آئی ہے وہ پارٹی سے کم و بیش چار عشروں سے زائد وابستہ رہے لیکن ان کو بھی قابل در خور اعتنا نہ سمجھا گیا واہ ٹیکسلا کی نشست پر عجیب و غریب صورت حال سامنے آئی ہے جہاں مسلم لیگ (ن) نے چوہدری نثار علی خان کے مخالف امیدوارکوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اپنی نشست دے دی۔ چوہدری تنویر خان جو راولپنڈی میں مسلم لیگ کے ’’کسٹوڈین‘‘ ہیں کے صاحبزادے اسامہ تنویر کوپارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا کئی جگہوں پر ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف پارٹی میں بغاوت کی کیفیت ہے۔ 

مخدوم جاوید ہاشمی ، سردار مہتاب احمد خان ، عائشہ رجب علی اور دانیال عزیز نے اپنی پارٹی کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ناصر بٹ نے احتساب عدالت کے جج کو ایکسپوژ کر کے نواز شریف کی بے گناہی ثابت کی تھی ٹکٹ نہ ملنے پر واپس لندن جا رہے ہیں۔ 

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ تو دور ہو گئی ہے لیکن پنجاب میں قومی اسمبلی کے ہر حلقہ میںان کی جماعت کو ’’بلے‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ریفرنس کے ممکنہ فیصلے سے قبل ہی جسٹس مظاہر علی نقوی نے استعفیٰ دے دیا ہے جب کہ اگلے روز اکتوبر 2024ء کو بننے والے چیف جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ اس طرح عدلیہ میں ثاقب نثا ر کی باقیات کا خاتمہ ہو گیاہے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے چارج سنبھالنے کے بعد جس تیز رفتاری سے اہم مقدمات کے فیصلے کئے ہیں اس کی ماضی میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔