26 جنوری ، 2024
میں نے میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول بھلوال سے کیا یہ پیلا اسکول تھا بچے ٹاٹوں پر بیٹھتے تھے اکثر کلاسیں کھلے گرائونڈ اور درختوں کے سائے میں لگتی تھیں بظاہر یہ پیلا اسکول تھا مگر اس کا ڈسپلن مثالی اور پڑھائی بہت اچھی تھی۔ ہیڈ ماسٹر چودھری مشتاق کا رعب اور دبدبہ تھا کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی استاد کلاس مس کردے۔
اسکول کا یونیفارم سفید شلوار قمیض تھا، بچے غریب تھے یا امیر سبھی اجلے کپڑے پہن کرا سکول آتے تھے، اس زمانے میں سول جج کابیٹا اور موچی کا بیٹا دونوں اسی سرکاری اسکول میں بیٹھتے تھے ۔ ڈی ایس پی کا صاحبزادہ لائو لشکر کے ساتھ اسکول آتا تھا مگر ٹاٹ پر منشی کے بیٹے کے ساتھ ہی بیٹھنا پڑتا تھا۔
اس سرکاری اسکول میں ہزاروں بچے زیر تعلیم تھے ایک ایک جماعت 10 سے 12 سیکشن ہوتے تھے ، اتنے سارے طالب علموں کو ڈسپلن میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اس زمانے میں ڈسپلن کے نفاذ کے لئے ہیڈ ماسٹر صاحب کی معاونت پی ٹی ماسٹرز کیا کرتے تھے۔ ان پی ٹی ماسٹروں کے منہ میں سیٹی اور ہاتھ میں لمبا بید ہوتا تھا۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں اسکول سے ملحقہ 8چک کے پی ٹی ماسٹر فضل خوف کی علامت ہوا کرتے تھے۔ ساڑھے چھ فٹ قد کے حامل اور سانولے رنگ کے تھے اکڑ کر چلتے تھے ہر وقت ان کی نگاہیں خشمگیں ہوتی تھیں۔ ہاتھ میں پکڑے بید کا استعمال اس قدر بہیمانہ طریقے سے کرتے تھے کہ ان کی مار دھاڑ دیکھنے والے بچے کئی کئی دن اس راستے سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔
ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال کا یہ اسکول چونکہ بہت بڑا تھا اس لئے پی ٹی ماسٹر کی وہاں دو اسامیاں تھیں۔ ماسٹر فضل کے علاوہ دوسرے پی ٹی عنایت تھے۔ پی ٹی ماسٹر عنایت بھی ساڑھے چھ فٹ قد کے تھے ان کا تعلق بھی پڑوسی گائوں 8 چک سے تھا۔ ماسٹر فضل اور عنایت دونوں ہی جٹ وڑائچ تھے۔ زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکری ہو تو اسے خوشحالی تصور کیا جاتا ہے۔ ماسٹر فضل اور عنایت دونوں کھیلوں کے ہرفن مولا تھے بالخصوص ماسٹر فضل فٹ بال کھیلتے تو سب سے نمایاں ہوتے، والی بال کے میدان میں اترتے تو تالیاں صرف انہی کے لئے بجتیں۔ کبڈی اور ہاکی کے بھی وہ اتنے ہی ماہر تھے۔ ماسٹر فضل اور عنایت میں بہت سی قدریں مشترک تھیں مگر شخصیات متضاد تھیں۔ ماسٹر عنایت نرم مزاج تھے جبکہ ماسٹر فضل کی قہر آلود نظریں ہر وقت خوف طاری رکھتی تھیں۔ ماسٹر عنایت غلطی کرنے پر معافی بھی دے دیتے تھے لیکن ماسٹر فضل کے ’’مولا بخش‘‘ سے کسی کو معافی نہیں تھی۔
ماضی کے دھندلکوں میں چھپی لڑکپن کی یہ یاد اس لئے آئی کہ آج میرے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ خوف بڑا جذبہ ہے یا محبت اور پیار؟ ہمارے بہت سے عملیت پسند دوست یہ واضح رائے رکھتے ہیں کہ خوف سے بڑا جذبہ کوئی نہیں، خوف ہو تو محبت کے باوجود آپ فیصلہ خوف کے حق میں کرتے ہیں۔
مثال یہ دی جاتی ہے کہ کوفہ میں ہر طرف حضرت امام حسینؓ سے محبت کی شمعیں روشن تھیں مگر ابن زیاد کی تلواروں کے خوف نے ان شمعوں کو سرے سے ہی بجھا دیا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو دو تہائی اکثریت سے حکمران تھے، شہرت اور مقبولیت کے علاوہ عوام کی انتہائی محبت بھی انہیں حاصل تھی مگر ضیاء الحق کے خوف نے یہ ساری محبت ملیامیٹ کردی، بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا اور جیالوں کی محبت گلیوں اور بازاروں میں ماتم کناں رہ گئی۔
دوسری طرف محبت اور پیار کا پرچار کرنے والے ماسٹر فضل کی بجائے پی ٹی ماسٹر عنایت کوفاتح عالم قرار دیتےہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ خوف وقتی طور پر تو جیت جاتا ہے لیکن دائمی فتح پیار اور محبت کی ہوتی ہے، یہ کہتے ہیں کہ آج اہل کوفہ میں کوئی ابن زیاد کا حامی موجود ہے؟ اب سب امام حسینؓ کے گیت گاتے ہیں، تاریخ میں فتح یاب محبت ہوئی خوف نہیں۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ ضیاء الحق کا خوف وقتی طور پر تو جیت گیا مگر آج ضیاء الحق کے مزار پر کوئی نہیں جاتا، بھٹو کے مزار پر آج بھی رونق لگی ہوئی ہے۔
دنیائے سیاست کو چالاکی اور عیاری سمجھنے والے میکاولی بھی یہ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا خوف ضروری ہے مگر اسے رعایا سے محبت کے جذبات کو پھیلانا ریاستی دانش کا تقاضا ہے۔ آج کی پاکستانی سیاست میں بھی خوف سے مخالف قافلے کے سپاہیوں کو ایک ایک کرکے گرایا جارہا ہے۔ پی ٹی ماسٹر فضل کی چھڑی لہرا کر اسکول میں ڈسپلن قائم کیا جارہا ہے۔ پی ٹی ماسٹر عنایت کی مسکراہٹ ، مہربانی اور پیار کو سرے سے ہی نظر انداز کیا جارہا ہے۔
چنگیز خانوں، ہلاکو خانوں، جابروں اور آمروں کے ڈنڈے اور تلواروں نے مخالفوں کو تو تہس نہس کردیا مگر آج وہ خود تاریخ کے سیاہ کوڑے دانوں میں پڑے اپنے اوپر ہونے والی تنقید و نفرت کو سننے پر مجبور ہوں گے۔ یہ سچ ہے کہ تاریخ کے سبق سے لوگ سبق نہیں سیکھتے۔ آج کے جدید دور میں بھی ہوا میں تلواریں چلانے کا عمل جاری ہے، کاش اس کی بجائے معاشرے کو جوڑنے، مخالفوں کو راضی کرنے، انہیں سہولتیں فراہم کرنے کا رجحان پیدا کیا جاتا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول بھلوال ہو یا گورنمنٹ آف پاکستان، اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ماسٹر فضل کا ڈنڈا چلا کر معاملات وقتی طور پر سیدھے کرنے ہیں یا پی ٹی ماسٹر عنایت کی مسکراہٹ اور حلیم الطبعی کا مظاہرہ کرکے دیرپا طور پر معاملات کو حل کرنا ہے۔ تاریخ یہی سکھاتی ہے کہ حکمران کے پاس طاقت و اختیار ہو تو اسے پھونک پھونک کر انہیں استعمال کرنا چاہیے۔
ذاتی طور پر میں بہت بزدل ہوں، اکلوتا بچہ ہونے کے سبب خوف نے میری زندگی میں ہمیشہ سے مجھے زیرنگین رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ممتاز دولتانہ اکلوتے بچے تھے خوف کا شکار تھے اگر بہادری دکھاتے تو وزیراعظم پاکستان بننے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ میں ایک نہتا صحافی ہر روز اپنے خوف سے لڑتا ہوں کبھی اس سے ہار جاتا ہوں مگر اکثر خوف کا پردہ پھاڑ کر اپنی محبتوں اور سیاسی پسندیدہ فکر کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ میری حقیر رائے میں معاشرے کے اندر بھی یہی کشمکش جاری رہتی ہے ۔
آئیڈیل معاشرہ وہی ہے جس میں قانون کے خوف کے علاوہ کوئی اور دبائو نہ ہو، مگر بدقسمتی ہے کہ قرآنی آیات کے مطابق خدائے مطلق نے اہل قریش کو تو خوف سے آزاد کر دیا تھا پاکستانی معاشرہ آج بھی خوف کا شکار ہے۔ ریاست کو کوشش کرنی چاہیے کہ معاشرے کو خوف سے آزاد کرے تبھی معاشرہ ترقی کرے گا، تبھی یہ خوشحال ہوگا، خوف میں جکڑے لوگ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ماسٹر فضل ڈسپلن تو پیدا کرلیتے ہیں لیکن ان کے لگے ڈنڈوں کے زخم تادیر ناسور بنے رہتے ہیں۔ پی ٹی ماسٹر عنایت کی محبت اور پیار معاشرے کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں اسی پیار اور محبت سے معاشرے آگے بڑھتے ہیں، افراد خوف سے آزاد ہو کر ہی اصلی محب وطن اور کچھ کرکے دکھانے والے شہری بنتے ہیں۔ DARK AGESیا تاریک ادوار اور آج کے جمہوری معاشروں میں بڑا فرق خوف کا ہے جو اب دور ہوگیا ہے، آزادیٔ فکر تبھی آتی ہے جب خوف دور ہو جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔