02 فروری ، 2024
دنیا بھر میں کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے اور پھیپھڑوں کا کینسر سرطان کی سب سے زیادہ تشخیص ہونے والی قسم ہے۔
کینسر کے عالمی دن کے حوالے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے ایک رپورٹ میں کینسر کے چونکا دینے والے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ہر سال 4 فروری کو کینسر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 میں کینسر کے نئے کیسز کی تعداد 2 کروڑ جبکہ اموات ایک کروڑ کے قریب پہنچ گئیں۔
اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران کینسر کے شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں لگ بھگ دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔
2000 میں کینسر کے سالانہ کیسز کی تعداد ایک کروڑ جبکہ اموات کی تعداد 62 لاکھ تھی۔
اس کے مقابلے میں 2022 میں نئے کیسز کی تعداد 19 کروڑ 96 لاکھ جبکہ اموات کی تعداد 97 لاکھ 40 ہزار رہی۔
اوسطاً اس وقت دنیا بھر میں ہر 5 میں سے ایک فرد کو اپنی زندگی میں کینسر کی کسی قسم کا سامنا ہو تا ہے۔
یہ تعداد آنے والے برسوں میں مزید بڑھ جائے گی، یعنی 2040 تک اس میں 50 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
دنیا بھر میں کینسر کے 12.4 فیصد کیسز پھیپھڑوں کے سرطان کے تھے جس کے بعد بریسٹ کینسر (11.6 فیصد) جبکہ colon کینسر (9.6 فیصد) بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
اموات کی تعداد کے لحاظ سے پھیپھڑوں کا کینسر سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوا۔
کینسر کی مجموعی اموات میں سے 18.7 فیصد اموات پھیپھڑوں کے کینسر سے ہوئی جس کے بعد colon کینسر (9.3 فیصد)، جگر کا کینسر (7.8 فیصد) اور بریسٹ کینسر (6.9 فیصد) رہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین کے مقابلے میں کینسر سے زیادہ ہلاکتیں مردوں کی ہوتی ہیں، اوسطاً ہر 100 میں سے 56 اموات مرد مریضوں کی ہوتی ہیں۔
کینسر کے عام ہونے کی وجہ طرز زندگی کے عناصر جیسے ناقص غذا، جسمانی سرگرمیوں سے دوری، تمباکو نوشی اور الکحل کا زیادہ استعمال ہے۔
اسی طرح عمر میں اضافے کے ساتھ بھی کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے مگر طرز زندگی میں چند تبدیلیوں سے اس جان لیوا بیماری سے بچنا ممکن ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم نہ ہو مگر چند عام چیزوں کے ذریعے کینسر کے ہر 3 میں سے ایک کیس کی روک تھام ہوسکتی ہیں۔
تمباکو میں 250 سے زیادہ نقصان دہ کیمیکلز موجود ہوتے ہیں۔
درحقیقت تمباکو میں موجود لگ بھگ 70 فیصد کیمیکلز کینسر کا باعث بن سکتے ہیں اور تمباکو نوشی سے صرف پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ ہی نہیں بڑھتا، بلکہ اس عادت کو کینسر کی 12 دیگر اقسام بشمول مثانے، معدے، منہ، گلے اور گردوں کے کینسر سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔
پھلوں اور سبزیوں میں غذائی اجزا اور فائبر کی مقدار زیادہ جبکہ چکنائی کم ہوتی ہے جس سے کینسر سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
اس حوالے سے گوبھی یا اس کی دیگر اقسام کو بہت زیادہ مفید تصور کیا جاتا ہے جو ڈی این اے کو تحفظ فراہم کرنے والی سبزیاں ہیں۔
اسی طرح بیریز کھانے سے بھی خلیات کو فائدہ ہوتا ہے اور کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
پیٹ اور کمر کے اردگرد چربی کے بڑھنے سے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق توند نکلنے سے چربی کے خلیات ایسا مواد خارج کرتے ہیں جس سے کینسر سے متاثرہ خلیات کی نشوونما تیز ہو جاتی ہے۔
اس کے مقابلے میں جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنے سے کینسر کی متعدد اقسام سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
ایسا نہیں کہ اپنی غذا سے گائے یا بکرے کے گوشت کو مکمل طور پر نکال دیں کیونکہ یہ آئرن کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے مگر اعتدال میں رہ کر کھائیں، خصوصاً پراسیس گوشت کھانے سے گریز کریں۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق کے مطابق ہفتہ بھر میں سرخ گوشت کی 350 سے 500 گرام مقدار کھانا صحت مند متوازن غذا کے لیے کافی ہے، اس سے زیادہ کھانا مختلف اقسام کے کینسر کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔
اگر آپ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں تو بہتر ہے کہ جسمانی طور پر سرگرم ہو جائیں، تاکہ کینسر کی مختلف اقسام سے بچ سکیں۔
ورزش کرنے سے موٹاپے کی روک تھام ہوتی ہے جبکہ مختلف ہارمونز جیسے انسولین اور estrogen کی سطح کم ہوتی ہے۔
ان ہارمونز کی زیادہ مقدار کو کینسر کی مختلف اقسام سے منسلک کیا جاتا ہے۔
دن بھر میں 30 منٹ تک ایروبک ورزشیں کرنے کی کوشش کریں۔
سائیکلنگ، جاگنگ اور تیز رفتاری سے چہل قدمی سب ایروبک ورزشوں کا حصہ ہیں۔
سورج کی تیز روشنی میں زیادہ وقت گھومنا پڑتا ہے تو اس سے جِلد کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین کا استعمال کریں، خاص طور پر زیادہ گرم دنوں میں۔
تمباکو نوشی کی طرح الکحل سے بھی کینسر کی متعدد اقسام کا خطرہ بڑھتا ہے۔
درحقیقت الکحل کی معمولی مقدار سے بھی کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
والدین سے ہمیں ورثے میں بہت کچھ ملتا ہے اور اس میں مختلف امراض جیسے کینسر کا امکان بھی شامل ہے۔
والدین سے بچوں میں منتقل ہونے والے کچھ جینز میں خامیاں ہو سکتی ہیں جو مستقبل میں کینسر کا باعث بن سکتی ہیں۔
یہ ایسا عنصر ہے جس پر ہم کنٹرول نہیں کر سکتے مگر قبل از وقت آگاہی سے مرض یا اس کی پیچیدگیوں سے بچنے میں کسی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔