سائفرکیس: اگر انفارمیشن کو ٹوئسٹ کیا گیا تو پتہ ہونا چاہیے اصل انفارمیشن کیا تھی؟'

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفرکیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران  چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ سائفر ٹرائل کورٹ کے  جج کو  بھی نہیں دکھایا گیا، اگر  انفارمیشن کو  ٹوئسٹ کیا گیا  تو  پتہ  ہونا چاہیےکہ  اصل انفارمیشن کیا  تھی۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے سائفرکیس میں بانی پی ٹی آئی اور  شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نےکہا کہ  عمران خان پر سائفر کو  پاس رکھنے اور  اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنےکے الزامات لگائےگئے مگر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنائےگئے اس کیس میں مسلح افواج، ممنوعہ جگہ  اور  بیرونی طاقتوں کے عناصر  مسنگ ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ اس سائفر  میں ایسا کیا لکھاہے؟

 وکیل نے کہا میں نے سائفر دیکھا نہیں اس لیے بتا نہیں سکتا کہ کیا لکھا ہے، سائفر کا کوڈ، ڈاکیومنٹ یا متن کہیں بیان نہیں ہوا، ایک طرف کہتے  ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے سب کچھ پبلک کر دیا اور  دوسری طرف کہتے ہیں سائفر دکھایا  تو  پبلک ہو جائےگا۔

عدالت نے کہا کہ واشنگٹن سے ایک شخص نے ایک چیز  بھیجی وہ کیا ہے؟ اس نے بتایا تو ہوگا کہ کیا چیز بھارت کے ہاتھ لگ گئی تو سکیورٹی سسٹم متاثر ہوگا، آپ کی بتائی گئی باتوں میں خفیہ  رکھے جانے والی تو کوئی بات نہیں۔

چیف جسٹس نےکہا کہ اگر انفارمیشن کو ٹوئسٹ کیا گیا  تو  پتہ ہونا چاہیےکہ اصل انفارمیشن کیا تھی اور  اسےکیسے ٹوئسٹ کیا گیا؟

اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے حامد علی شاہ نےکہا کہ  جو  سائفر  بھیجا گیا وہ کلاسیفائیڈ تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص کو سزا دی گئی تو  یہ معلوم تو ہو کہ دستاویز میں کمیونیکیشن کیا تھی؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی پر صرف معاونت نہیں، سازش اور اشتعال انگیزی کا  الزام لگا کر تقریر کی چار لائنوں پر 10سال قیدکا فیصلہ سنادیا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ یہ تو ایک سیاسی تقریر ہے۔ 

اپیل پر مزید سماعت منگل کو  ہوگی۔

مزید خبریں :