Time 19 مارچ ، 2024
بلاگ

پی ٹی آئی کی گود کیوں ہری نہ ہوئی؟

جمعیت علمائے اسلام کے امیر محترم، مولانا فضل الرحمن کی چوکھٹ کو بوسہ دینے، مجلس وحدت المسلمین کے علامہ ناصر عباس کی بارگاہ عالی میں کورنش بجالانے، رابطہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی کے آستانۂِ عالیہ پر جبّہ سائی کرنے اور تحریک انصاف (نظریاتی) کے اخترڈار کی قدم بوسی کرنے کے بعد ’’چہرہ تلاشی‘‘ کیلئے ماری ماری پھرتی پی۔ٹی۔آئی سُنّی اتحاد کونسل کے حجرۂِ مُشکبار میں پہنچی اور حضرت صاحبزادہ حامد رضا مدظلہ کے دستِ مبارک پہ بَیعَت کرلی۔ 

نام اور چہرہ پاتے ہی وہ بے نقاب وبے حجاب ہوکر پازیب چھنکاتی عمران خان کے دیرینہ ’’دوست‘‘ محمود خان اچکزئی کے دربار میں حاضر ہوئی اور اپنی برسوں کی ’انا‘ طرحدارپٹھان کے قدموں میں رکھتے ہوئے اُسے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔ اب جبکہ محفوظ پناہ گاہ تصوّر ہونیوالی پشاورہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان نے متفقہ طورپر قرار دیا ہے کہ صفرجمع صفر کا نتیجہ صفر ہی ہوتا ہے تو پارٹی کے اندر ’جُوتم پَیزار‘ شروع ہوگئی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ سُنّی اتحاد کونسل کیساتھ عقدِ مصلحت (Marriage of Convenience) بانجھ ثابت ہونے کے باعث پی۔ٹی۔آئی خلع حاصل کرنے کی سبیل ڈھونڈ رہی ہے۔ قانون کے مفتیوں کا فتویٰ ہے کہ اب یہ ممکن نہیں رہا۔

استاد ابراہیم ذوق نے کہا تھا

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بدقمار

جو چال ہم چلے سو نہایت بُری چَلے

اچھی خاصی عوامی تائیدو حمایت رکھنے والی جماعت صحرا کا بگولہ کیوں بن گئی ہے؟ صرف عمران خان نامی حکمت کار کی وجہ سے جس کی ضد، ہٹ دھرمی، انا، نرگسیت، بے ہنری اور کم دانشی نے آکاش بیل کی طرح اپنی ہری بھری جماعت کو شجرِ بے برگ وثمر بنا ڈالا۔ 

آج عالم یہ ہے کہ 336 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں صرف دو ارکان ہیں جو سُنّی اتحاد کونسل میں ضم ہونے کے بجائے تحریک انصاف سے وابستہ آزاد ارکان کا تشخص اپنائے ہوئے ہیں۔ ایک بیرسٹر گوہر اور دوسرے عمر ایوب۔ یہ بھی عہدِوفا نباہنے کے لئے نہیں، محض پی۔ٹی۔آئی انٹراپارٹی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے۔ اسکے 293وابستگان پرائے گھر سدھار چکے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ پی۔ٹی۔آئی کا بحرِبے کراں، سُنّی اتحاد کونسل کے مقدس قطرۂِ شبنم میں ضم ہونے کے بعد بھی حقیروبے توقیر کیوں ٹھہرا؟ مخصوص نشستوں کیلئے، سارے جَگ کی رسوائیاں مول لینے کے باوجود اُسکی گود کیوں ہری نہ ہوئی؟ صرف اسلئے کہ پی۔ٹی۔آئی خود اپنے آئین کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔ 

پروپیگنڈے کے ہُنر میں طاق اور مشّاق قبیلے نے اپنی پہاڑ جتنی بڑی غلطی، کوتاہی اور غفلت کو پیچھے دھکیل کر مظلومیت کا سیاپا شروع کررکھا ہے لیکن صاف، شفاف اور کھرا سچ یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی نے الیکشن کمیشن کی بار بار کی یاددہانیوں کو گھاس کے تنکے جتنی اہمیت بھی نہ دی اور ڈھٹائی کے ساتھ سرکشی کے بے مہار راستے پہ بگٹٹ دوڑتی چلی گئی صرف اس زعم میں کہ ’’صداقت وامانت‘‘ کی سند عطاکرنے اور ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہتے ہوئے استقبال کرنے والے صاحبان عدل ہمارے ساتھ ہیں تو الیکشن کمیشن کیا کرلے گا؟

پی۔ٹی۔آئی نے آخری انٹراپارٹی الیکشن 13جون 2016ءکو کرائے تھے۔ پانچ برس بعد لازم تھا کہ وہ 13جون 2021ءسے پہلے پہلے داخلی انتخابات کرادے۔ اُس نے ایسا نہ کیا۔ الیکشن کمیشن نے پارٹی کو تحریری طور پر توجہ دلائی کہ وہ الیکشن ایکٹ 2017کا قانونی تقاضا پورا کرے۔ پی۔ٹی۔آئی نے جواب دیا کہ کرونا کی وجہ سے انتخابات نہیں کرائے جاسکے۔ براہِ کرم ایک سال کی مہلت دے دی جائے۔ 

الیکشن کمیشن نے کسی تردّد کے بغیر 13 جون 2022 ءتک مہلت دے دی۔ جب گیارہ ماہ بعد،مئی 2022تک انتخابات نہ کرائے گئے توالیکشن کمیشن نے دوسری بار، اس تنبیہ کے ساتھ قانونی تقاضے کی طرف توجہ دلائی کہ مزید توسیع نہیں دی جائے گی۔ اس پر یہ کرتب کاری کی گئی کہ پی۔ٹی۔آئی کا آئین ہی بدل دیاگیا اور 8 جون کو بے سروپا انتخابات کا ڈرامہ رچا کر اپنے تئیں قانونی ضرورت پوری کردی گئی۔ کمیشن نے پارٹی کی طرف سے جمع کرائے کاغذ کو الیکشن ایکٹ کے مطابق باضابطہ سرٹیفکیٹ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک بار پھر طریقۂِ کار کے مطابق انتخابات کرانے کیلئے کہا۔ پی۔ٹی۔آئی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

تنگ آکر 8فروری کے عام انتخابات سے چھ ماہ قبل، یکم اگست 2023ءکو الیکشن کمیشن نے دو ٹوک اور واضح طورپر پی۔ٹی۔آئی کو متوجہ کیا کہ وہ فوری طورپر انٹرا پارٹی الیکشنز کرائے بصورت دیگر نتائج کیلئے تیار رہے۔ کمیشن نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 ءکے سیکشن 208، 209اور 215کے تحت، مقررہ طریقِ کار کے مطابق داخلی انتخابات ضروری ہیں۔ کمیشن نے مزید کہا

’’Failing which the commission under section 215(5) of the Election Act 2017, may declare your Party ineligible to obtain election symbol for future election.‘‘

(اگر آپ انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہتے ہیں تو الیکشن کمیشن، الیکشن ایکٹ2017 کے آرٹیکل 215 (5) کے تحت آئندہ انتخابات کے لئے آپ کی پارٹی کو انتخابی نشان کے حق سے محروم کرسکتا ہے۔)عام انتخابات سے چھ ماہ چھ دِن قبل، 2 اگست 2023 ءکو انگریزی روزنامے ’’دی نیوز‘‘ میں معروف رپورٹر نوشین یوسف کی ایک اسٹوری جلی حروف میں اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی

’’PTI may be deprived of election symbol‘‘

(پی۔ٹی۔آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوسکتی ہے)

اس کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ انتخابات سے کوئی ڈیڑھ ماہ قبل الیکشن کمیشن نے 23نومبر2023ءکو ایک اور نوٹس جاری کرتے ہوئے پی۔ٹی۔آئی سے کہا کہ وہ ضابطے کے مطابق بیس دن کے اندر اندر انتخابات کرائے ورنہ انتخابی نشان کی حق دار نہیں رہے گی۔ پنجابی محاورے کے مطابق ناک سے بہتا نزلہ منہ تک آگیا تو پشاور سے چند کلومیٹر دور گم نام سے نواحی گائوں میں انتخابات کے نام پر ایک منڈلی جمی جس کا منظر پوری قوم نے دیکھا۔ لاکھوں ارکان کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے داخلی انتخابات میں دو دَرجن افراد بھی شریک نہ ہوئے۔ 

تمام عہدیداروں کو بلامقابلہ منتخب قرار دے کر ’’سرٹیفیکیٹ‘‘ جمع کرا دیاگیا جسے بانی رُکن اکبر ایس بابر اور دیگر پارٹی راہنماؤں نے چیلنج کردیا۔ الیکشن نامعتبر ٹھہرے۔ انتخابی نشان چھن گیا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ آج پی۔ٹی۔آئی اپنی اجڑی مانگ میں راکھ ڈالے بیوگی کا ماتم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی ڈھائی برس پر محیط کوششوں کا کوئی ذکر نہیں کرتی نہ ہی اتنے طویل عرصے میں قواعد وضوابط کے مطابق انتخابات نہ کراسکنے کا کوئی جواز پیش کرتی ہے۔واحد دلیل یہ کہ دوسری جماعتیں بھی یہی کچھ کرتی ہیں۔ یہ بھی غلط بیانی ہے۔ دوسری جماعتیں مکمل طورپر اپنے آئین کی پاسداری کرتی ہیں۔کسی نے کرونا کا بہانہ نہیں کیا اور کسی کے انتخابات چیلنج نہیں ہوئے۔وکلاء سے چھلکتی جماعت فقط اداروں کو کوسے جا رہی ہےکہ یہی اُس کا ہُنر ہے۔ پی۔ٹی۔آئی نے قانون کی ابجد سے ناآشنا گروہ کی طرح مخصوص نشستوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے جس طرح سرکس لگایا، اس کا ذکر پھر سہی۔

شیر افضل مروت کا کہنا ہے ’’ہماری دوغلطیوں نے ہمیں مخصوص سیٹوں سے محروم کردیا۔ ہم ایسا کرنے والوں کا پتہ چلارہے ہیں۔‘‘ دو غلطیوں کا ارتکاب کرنے والوں کا پتہ ضرور چلائیں لیکن کیا 9 مئی سمیت، برسوں اپنی جماعت کو غلطیوں کے کولہو میں پیلنے اور اُسے سیٹوں ہی نہیں، نام ونشان تک سے محروم کردینے والا مردِ ہُنرکار بھی کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔