05 اپریل ، 2024
ایم کیو ایم پاکستان کے بظاہر غیر فعال اہم رہنماؤں میں سے چند کراچی میں مگر زیادہ تر متحدہ عرب امارات، امریکا اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔
پاکستان میں فعال کراچی کی زمین ان پر فی الحال تنگ سہی مگر مارچ میں کچھ ایسا ہوا ہے کہ قرعہ فال ان غیر فعال رہنماؤں کے حق میں نکتا نظر آنے لگا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان غیر فعال رہنماؤں کی دبئی میں بیٹھکیں بڑھ گئی ہیں۔اب ہر دوسرے روز افطار یا سحری کے موقع پر جمع ہوکر ملک میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کے تناظر میں حکمت عملی کی تیاری کی جارہی ہے جبکہ کراچی اور حیدر آباد سے بعض غیر فعال رہنما ٹیلے فون پرشامل ہوتےہیں۔
کراچی میں ایم کیوایم کے ایک رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ اس اوورسیز بظاہر غیرفعال مگر حقیقت میں پوری طرح سے فعال ایم کیوایم کے رہنما، سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی قیادت میں پارٹی کو ماضی کی طرح سندھ کے اہم شہروں میں فعال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایجنڈہ کیا ہے،پارٹی میدان میں کب اُترے گی اور موجودہ ایم کیوایم پر اسکے اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا ذکر بعد میں مگر پہلے یہ کہ آخر لائم لائٹ میں آنے سے گریز کرنیوالے ڈاکٹرعشرت العباد میں ایسا کیاہے، جو وہ اس گروپ کے تمام رہنماوں کیلئے یکساں قابل قبول ہیں؟
اسلام آباد میں ایک اہم شخصیت نے اس نمائندے کو بتایا کہ ڈاکٹر عشرت العباد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہیں آرٹ آف سروائیول یعنی بقا کی جنگ جیتنے کا ہنر آتا ہے۔
ڈاکٹر عشرت العباد کی 14 برس پر محیط گورنری پرنظرڈالی جائےتو یہ بات کئی لحاظ سے سچ ثابت ہوتی بھی نظرآتی ہے۔ایک عشرے پہلے جب بانی ایم کیوایم کی کراچی پرگرفت پوری طرح مضبوط تھی،بانی کے اشارے پر ایم کیوایم کی سینئر قیادت کی نائن زیرو پر پٹائی تو ہوئی مگر ڈاکٹر عشرت العباد کو بارہا ڈس اون کرنے کے باوجود سابق گورنرکا احترام اس قدر رہا کہ کسی نے ان پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہیں کی۔
آرٹ آف سروائیوول میں مہارت کی ایک اورمثال یہ بھی ہے کہ سابق صدر مشرف ہوں، آصف زرداری، نوازشریف یا حد یہ کہ عمران خان، سابق گورنر کی سیاسی بصیرت کے سب ہی قائل رہے۔ سوائے چند ایک کے، مقتدر حلقوں میں بھی ڈاکٹرعباد کی حکمت عملی کو سراہا جاتا رہا۔
ایم کیوایم کی تاریخ پرگہری نظر رکھنے والی ایک غیر سیاسی شخصیت کے مطابق ڈاکٹرعباد کا جو اقدام انہیں اس پارٹی کے دیگرتمام رہنماؤں سے ممتاز کرتا ہے وہ سن دوہزار تیرہ میں شروع کیا گیا آپریشن تھا۔دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، سیاسی تشدد، گینگ وار، بھتہ خوری اور چائنا کٹنگ کیخلاف وہ آپریشن بظاہر ایم کیوایم کے خلاف تھا مگر اسی کے جاری رہنے ہی میں پارٹی کی بقا تھی۔
وہی آپریشن جسکا خاکہ ڈاکٹرعشرت العباد نے سن دوہزار بارہ میں تیار کرلیا تھا،شناخت کی جاچکی تھی کہ دہشتگردوں کے کتنے ممکنہ سلیپر سیلز ہیں اور سیاسی تشدد کی ہدایات کون دیتا ہے؟ اس کارروائی کا آغازتو الیکشن کے بعد ہونا تھا مگرمارچ سن 2013 میں کراچی کے علاقے عباس ٹاؤن میں تباہ کن بم دھماکے نے آپریشن کے فوری آغاز کی راہ ہموار کردی تھی۔
قارئین جانتے ہیں کہ ستمبر 2013 میں وفاقی کابینہ کی اہم میٹنگ وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت کراچی میں ہوئی تھی جس میں آرمی چیف بھی موجود تھے،میٹنگ میں ڈاکٹرعباد ہی نے پریزنٹیشن دی تھی کہ جرائم کی نوعیت کیا ہے، کرنے والے کون ہیں، اس سے مفاد کن کن لوگوں کے جڑے ہیں اور روکنے کیلیے کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے؟
اپیکس کمیٹی بنانے کی تجویز بھی انہوں نے اسی موقع پرپیش کی تھی۔ جس کے بعد میاں نوازشریف نے رینجرز کی قیادت میں ٹارگٹڈ آپریشن کااعلان کردیا تھا۔قانون نافذ کرنیوالے ادارے ہی جانتے ہوں گے کہ وہ کون سے افراد تھے جومجرموں کے سرپرست تھے اور ان میں سے کس کیخلاف کس قدر کارروائی کی گئی؟
یہ ضرور واضح ہے کہ دہشتگردوں کے سلیپرسیلز 15 کے بجائے 60 نکلے، جن ٹارگٹ کلرز کی تعداد 230 تصور کی گئی تھی وہ ا850 سے زائد تھی اور یہ بھی کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ایم کیوایم سے تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ چائنا کٹنگ کے بعض کیسوں میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے بعض افراد بھی ملوث ہونے کے دعوے سامنے آئے تھےمگر متحدہ کے افراد اس قدر ملوث تھے کہ بعض علاقوں میں ایک گروپ کے ہاتھوں دوسرے گروپ کے افراد قتل ہورہے تھے۔
ٹارگٹڈ آپریشن کے جواب میں ٹارگٹڈ کلنگ اور ہڑتالوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا، گورنر کیخلاف نائن زیرو سے لندن سیکریٹریٹ فیکس کا تانتا بندھا ، ساتھ ہی بانی ایم کیوایم اور ڈاکٹرعشرت العباد میں ناپٹنے والی خلیج پیدا ہوگئی اور بلآخر 2015 میں بانی ایم کیوایم نے ان سے لاتعلقی کااعلان کردیا۔
اس دوران بانی ایم کیوایم کی تقاریر پرلاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پابندی اور ہڑتالیں روکنے کا میکنزم فعال ہونے سے کچھ تبدیلی آئی لیکن مقتدر حلقے اب ملکی سیاست میں نیا رنگ بھرنے کی تیاری میں تھے۔
بانی پی ٹی آئی کے امریکا میں مقیم قریبی ساتھی نے اس نمائندے کو بتایا کہ گورنر عشرت العباد اور عمران خان کے درمیان اچھی کیمسٹری تھی۔ خاص طورپر این اے 246 میں ضمنی الیکشن کے موقع پر پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسماعیل کا جلسہ عمران خان نے ایم کیوایم کے گڑھ جناح گراونڈ میں رکھا تویہ ڈاکٹرعباد کی عمران خان کو فون کال ہی کے نتیجے میں شاہراہ پاکستان پر منتقل ہوا تھا۔
بقول پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹرعباد نے عمران خان سے کہا تھا کہ آپ جہاں چاہیں جلسہ رکھیں مگرملکی سطح کے رہنما ہیں تو سیاسی آداب نہ چھوڑیں،کیونکہ جناح گراؤنڈ میں جلسہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی جماعت بنی گالا آکر سیاسی زورآزمائی کرے۔اس ایک بات نے ڈاکٹرعباد اورعمران خان کی قربتیں اس حد تک بڑھادی تھیں کہ ایم کیوایم نے عمران خان کو دورے میں اپنی بیگم ریحام خان کو لانے کی بھی دعوت دی اور رات ایک بجے فاروق ستار کو ہدایت ملی کہ منہ دکھائی کیلئے سونے کا سیٹ لایا جائے۔
یہی پس منظر تھا کہ جب عمران خان سے کسی شخصیت نے کہا کہ عشرت العباد کے ہوتے ہوئے کراچی اور حیدر آباد میں پی ٹی آئی نہیں پنپ سکتی اورآپ انکے خلاف بیان دیں تو انہوں نے صاف انکار کردیا تھا۔ کسی نے اوپر سے ہدایت کا کہہ کر شاہ محمود قریشی کو استعمال کرنا چاہا تووہ بھی نہ مانے۔
بعض لوگوں کو حیرت ہوئی جب عارف علوی نے ڈاکٹرعشرت العباد کے خلاف توپ کا پہلا گولا داغا،عالم آن لائن کے میزبان مرحوم عامر لیاقت بھی کام آئے مگرکم گُو ڈاکٹرعباد نے انہیں صرف ایک لفظ اینٹرٹینر کہہ کر شافی گولی دی اور ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا۔
ایم کیوایم کے پاکستان میں ایک غیر فعال رہنما کے مطابق یہی وہ وقت تھا جب ڈاکٹرعشرت العباد نے عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔انہوں نے اس دور کےآرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ایدھی صاحب کی سرکاری اعزاز کےساتھ تدفین کے موقع پر بتایا کہ کراچی کو دہشتگردوں، ٹارگٹ کلرز،بھتہ مافیا، گینگ واراور چائنا کٹنگ کرنیوالی مافیا سے صاف کرنے کی کوشش میں وہ سیاسی قیمت ادا کرچکے اور چاہتے ہیں کہ عزت کے ساتھ منصب سے علیحدہ ہوجائیں۔
انہی غیر فعال رہنما کے مطابق ڈاکٹرعباد نے جنرل راحیل شریف سے جولائی 2016 ہی میں ون آن ون ملاقات بھی کی۔ جس میں یہ بھی کہ دیا کہ چونکہ آپ اپنے منصب سےسبکدوش ہورہےہیں اورآپ کے بغیر یہ پراسس جاری رہنا مشکل لگتا ہے اسلیے انہوں نے بھی گورنری چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہوابھی کچھ ایسا ہی کہ ڈاکٹرعباد 11 نومبر کو سبکدوش ہو کردبئی چلے گئے۔
پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کے مطابق ڈاکٹرعباد سے پہلا سیاسی رابطہ آصف زرداری صاحب نے کیا۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات دبئی میں ہوئی جس میں زرداری صاحب نے امن وامان کی صورتحال میں بہتری لانے اور ترقیاتی کاموں میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت کے اقدامات کو سراہا۔ساتھ ہی ڈاکٹرعباد کو ساتھیوں سمیت پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ یقین دہانی بھی کرائی کہ شہری علاقوں میں انہیں جائز حق دیا جائےگا،مگر اس وقت کی سیاسی فضا کے باعث سابق گورنر نے پیشکش قبول کرنے سے احتراز کیا۔
پی ٹی آئی کے امریکا میں مقیم رہنما کے مطابق عمران خان کے ایک بااعتماد ساتھی نے 2018 میں ڈاکٹرعشرت العباد سے دبئی میں ملاقات کی تھی۔ اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی کا پیغام پہنچایا تھا کہ کراچی اورحیدرآباد میں پی ٹی آئی کا ساتھ دیں۔ پی ٹی آئی جواب میں سندھ کی گورنری انہیں سونپے گی۔تاہم ڈاکٹر عباد نے بعض وجوہات کی بنا پر معذرت کرلی تھی۔
ذرائع کے مطابق اب شاہد خاقان عباسی گروپ بھی ڈاکٹرعشرت العباد سے رابطے میں ہے، ایک اہم ملاقات بھی ہوئی ہے جس میں سندھ کے شہری علاقوں کے منظر نامے پر بات ہوئی۔اس گروپ کے نزدیک ڈاکٹرعباد ایم کیوایم کی اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جس نے مہاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا تھا،ان میں لیڈری چمکانے کی بیماری نہیں بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت ہے۔ کسی حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے کیونکہ عشرت العباد کےدور میں ہررات رہنماوں کی دیر گئے تک بیٹھکوں کے باعث گورنر ہاؤس کو ایم کیوایم ہاوس تصور کیاجاتا تھا۔اور آج بھی ایم کیوایم کے تمام غیرفعال سینئر رہنما انہی سے رابطے میں ہیں۔
اگلے الیکشن سے پہلے ڈاکٹرعشرت العباد کی قیادت میں تمام غیرفعال رہنما پاکستان میں فعال ہوئے تو پاکستان میں فعال ایم کیوایم کا کیا ہوگا؟ یہ بات پھر سہی کیونکہ ڈاکٹرعشرت العباد کا نام نگراں وزیراعظم کے لیے لیا گیا تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے قائدین نے تو حمایت کردی تھی مگر پاکستان میں فعال ایم کیوایم کے بعض رہنماؤں کا رنگ اُڑ گیا تھا کہ ۔۔۔ڈاکٹرعشرت العباد ہی کیوں؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔