09 اپریل ، 2024
ایم کیوایم پاکستان نے مہینوں بحث اور مباحثے کے بعد سندھ کی گورنری سے متعلق 'مسئلہ فیثا غورث' بلآخر حل کرلیا۔
ایم کیوایم کے ایک فعال رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ تحریک کے اہم ترین رہنماؤں کا اجلاس ہوا ہے جس میں کنوینر خالد مقبول صدیقی اور مصطفیٰ کمال بھی موجود تھے۔ یوں تو کئی مسائل پر بات ہوئی مگر گورنری کے معاملے پر اتفاق کرلیا گیا۔
ایک اور رہنما کے مطابق اجلاس کے آغاز میں مصطفیٰ کمال نے وہی لہجہ اختیار کیا جس میں پہلے کبھی سابق میئر وسیم اختر بات کرچکے تھے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ایم کیوایم کی روایت رہی ہے کہ تمام امور مشاورت سے طے کیے جاتے تھے جس کی فیصل سبزواری نے بھی تائید کی۔ بعض رہنماؤں نے شکایت کی کہ خالد مقبول صدیقی خود ایم کیوایم کے سینیئر لوگوں کا فون تک نہیں اٹھاتے، اب سینیئر لوگوں کو پندرہ دن بعد ملنے کا وقت ملتا ہے تو کارکنوں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟
انہی رہنما کے بقول گورنری کے معاملے پرمصطفیٰ کمال نے خالد مقبول صدیقی سے پوچھا کہ آخر محمد کامران خان ٹیسوری ایم کیوایم کے گورنر ہیں یا کسی اور کے؟
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہم گورنر ٹیسوری کا دفاع کرتے ہیں مگر پھر ایک کے بعد دوسرا نام آجاتا ہے، پوزیشن واضح ہونی چاہیے تاکہ اگر ٹیسوری ہمارے گورنر نہیں تو ہم انہیں ڈس اون کردیں جس پر خالدمقبول صدیقی نےدو ٹوک انداز سے کہا کہ کامران ٹیسوری ہی ہمارے گورنر ہیں اور ایم کیوایم انہی کو اگلی باربھی گورنر دیکھنا چاہتی ہے۔
بعض افراد نے خوش بخت شجاعت سے متعلق گردش کرتی افواہوں کے بارے میں پوچھا تو واضح کردیا گیا کہ وہ ایم کیوایم کی جانب سے گورنر کیلئے نامزد نہیں کی گئیں اور نہ ان کی وکالت کی جارہی ہے۔ اس طرح خالد مقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار گروپ جو اب ایم کیوایم پاکستان کہلاتےہیں، تینوں سندھ کی دوبارہ گورنری کیلئے پہلی بار کامران ٹیسوری کے نام پر بظاہر متفق ہوگئے ہیں۔
اجلاس میں ایم کیوایم پاکستان نے مرکزی ایڈہاک کمیٹی میں تین اراکین کا اضافہ بھی کیا، رابطہ کمیٹی توڑ کر قائم کی گئی اس کمیٹی میں اضافے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، اس پر ایم کیوایم کی فعال اور غیر فعال قیادت کے درمیان چپقلش بڑھ گئی ہے۔
کنوینر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے جاری اعلامہ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی ایڈہاک کمیٹی میں 'بحثیت ممبر سید امین الحق بھائی، سید فیصل سبزواری بھائی اور فرقان اطیب بھائی کو شامل کیا گیا ہے'۔ سید امین الحق اور فرقان اطیب تنظیمی اور شعبہ اطلاعات کی ذمہ داریاں انجام دیں گے۔
ایک غیر فعال رہنما نے یاد دلایا کہ شامل میں کیے گئے نئے تین افراد میں سابقہ پاک سرزمین پارٹی کا ایک بھی نمائندہ نہیں۔
حال ہی میں رابطہ کمیٹی کو توڑ کریہ مرکزی ایڈہاک کمیٹی خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے جس میں ابتدائی طورپر سید مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی، ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل، کیف الوری اور رضوان بابر کو شامل کیا گیا تھا۔
ایم کیوایم کے ایک سینیئرفعال رہنما نے کہا کہ مرکزی ایڈہاک کمیٹی اب بھی مکمل نہیں، عین ممکن ہے کہ آئندہ چند روز میں کچھ اور رہنماؤں کو بھی اس میں شامل کیا جائے کیونکہ تنظیمی معاملات اس قدر زیادہ ہیں کہ چند افراد انہیں انجام نہیں دے سکتے۔
ایم کیوایم کے ایک غیر فعال رہنما نے دعویٰ کیا کہ اس ایڈہاک کمیٹی کی قانونی حیثیت ہی نہیں۔ ان کے مطابق رابطہ کمیٹی توڑی ہی غلط گئی تھی، طریقہ کار بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رابطہ کمیٹی توڑنے کے لیے پہلے نوٹس آویزاں کیا جاتا ہے پھر جنرل ورکرز اجلاس ہوتا ہے جس کے بعد خالد مقبول صدیقی کو رابطہ کمیٹی سے اجازت لینا چاہیے تھی۔ بعد میں نئی رابطہ کمیٹی کا انتخاب کیا جاتا ہے اورالیکشن کمیشن کو تازہ صورتحال سے باضابطہ طورپر آگاہ کردیا جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ ابھی تک اسے نئی صورتحال سے اسے آگاہ نہیں کیا گیا۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ پارٹی رہنماؤں کی جو فہرست الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی تھی، وہی قائم ہے جس میں ایم کیوایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی ہیں جبکہ 4 سینیئر ڈپٹی کنوینرز سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان اور نسرین جلیل ہیں۔ ساتھ ہی 4 ڈپٹی کنوینرز میں انیس قائم خانی، وسیم اختر، خواجہ اظہار الحسن ایڈووکیٹ اور عبدالوسیم شامل ہیں۔ اعزازی ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل مرحوم ہیں۔اتفاق یہ کہ یہی معلومات آج تک ایم کیوایم پاکستان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔
غیرفعال رہنما نے دعوی کیا کہ ’رابطہ کمیٹی توڑنے کے فیصلے میں ضوابط کی خلاف ورزی کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بعض رہنما غیر فعال ہیں وہی اصل میں فعال ہیں اور جو فعال ہیں ان میں سے کئی غیرقانونی طورپر فعال ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک اجلاس ہوا تھا جس میں مصطفیٰ کمال اور گورنر ٹیسوری کی آڈیو لیکس پر بات کی گئی۔ فرقان اطیب نے کہا کہ آڈیو لیک ہوئی ہے تو رابطہ کمیٹی توڑ دی جائے، اس پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ رابطہ کمیٹی توڑدی گئی اور وہ یہ کہہ کر اٹھ کر کمرے سے چلے گئے‘۔
ایم کیوایم کے غیر فعال رہنما نے کہا کہ 'تحریک کے بعض لیڈر جو کرتے رہے ہیں وہ قوم کے سامنے آگیا تو کئی نامور چہرے منہہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے'۔ وہ بولے کہ یہ اہم سوال ہے کہ 'ایم کیوایم کا کون سا لیڈر اپنے کس رہنما کو ساڑھے تین برس تک 50 لاکھ روپے مہینہ دیتا رہا؟' میں نے دونوں رہنماؤں کا نام پوچھا تو بتانے سےگریز کرتے ہوئے بولے کہ لکھو گے تو قلم کی کانپیں ٹانگ جائیں گی مگر اتنا ضرور کہا کہ 'ڈھونڈو ایم کیوایم میں جھوٹا ترین شخص کون ہے'۔
مجھے سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا یاد آگئے جنہوں نے اُس وقت اپنی پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک کے بارے میں کہا تھا کہ 'رحمان ملک پیدائشی جھوٹے ہیں، اگر سیب کھارہے ہوں تو کہتے ہیں کیلا کھارہاہوں'۔
غیرفعال ایم کیوایم لیڈروں کے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے ایم کیوایم کے سینیئر رہنما امین الحق نے کہا کہ جس اجلاس میں رابطہ کمیٹی توڑی گئی اس میں 80 فیصد لوگ موجود تھے۔ ویڈیو لیک کی بات پر رابطہ کمیٹی توڑنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا اور خالد مقبول صدیقی کو اختیارات دیے گئے تھے۔ تاہم نوٹس آویزاں کیے جانے اور جنرل ورکرز اجلاس سے متعلق انہوں نے وضاحت نہیں کی۔
امین الحق نے اتنا ضرور کہا کہ ہر پارٹی اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرتی ہے اور الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کو باضابطہ طورپر آگاہ کردیا جاتا ہے، ایم کیوایم بھی اُسی وقت اس کا فیصلہ کرے گی۔
قومی اسمبلی کے امیداروں سے متعلق امین الحق نے کہا کہ ملیر میں تین دہائیوں سے ایم کیوایم نے کسی امیدوار کو کھڑا ہی نہیں کیا۔ ملیر ون سے صرف ایک سو اڑتالیس ووٹ لینے والی فوزیہ حمید کے بارے میں انہوں نے کہا کہ فوزیہ صاحبہ کو خواتین کی نمائندگی کیلئے ٹکٹ دیا گیا تھا جبکہ ملیر ٹو اور ملیر تھری میں ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی گئی تھی۔
امین الحق بولے کہ ایم کیوایم کو اس بات کا ضرور کریڈٹ ملنا چاہیے کہ اس نے ملک کو نوجوان اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی قیادت دی۔
ایم کیوایم کے ایک اور فعال رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ 'سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد اور بابرغوری نے موجودہ قیادت سے کئی بار رابطہ کیا تھا مگر انکی کریڈیبیلیٹی کے مقابلے میں لایابیلیٹی زیادہ تھی، اس لیے سابق گورنر اور سابق وفاقی وزیر کو آرام کا مشورہ دیا گیا'۔
عامر خان کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ خود ہی منظر سے پیچھے ہٹتے گئے تاہم ان رہنما نے یہ تسلیم کیا کہ ایم کیوایم کیلئے عشروں کام کرنیوالے عامر خان نے کچھ عرصہ پہلے جب گورنری چاہی تو وہ نہ دی گئی اور سینیٹر بننا چاہا تو اس سے بھی محروم کردیے گئے۔
ایک غیر فعال رہنما نے کہا کہ ڈاکٹرعشرت العباد کی یہی کریڈیبیلیٹی کافی ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں اور وہ تمام سیاسی جماعتوں میں قابل احترام رہے ہیں۔ بابرغوری کی ساکھ پرکوئی داغ تھا ایم کیوایم نے انہیں باضابطہ ڈس اون کیوں نہ کیا؟ یہ بھی کہ معاملہ مقدمات تک ہے تو بات نکلے تو پھر دور تلک جائے گی۔
تیسرے رہنما عامرخان پر گزری وہ شاید کبھی خود بتائیں، اتنا ضرور ہے کہ فی الحال کامران ٹیسوری کو اس اذیت سے بچالیا گیا ہے جس سے عامر خان گزرے تھے اور اختلافات کا شکار ایم کیوایم پاکستان کو دانش مندوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ خالد مقبول صدیقی ہی کو اپنا باس مانیں۔