15 مئی ، 2024
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہےکہ یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں لیکن انہیں منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔
ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
ہائر ایجوکیشن کی طرف سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 154 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، 66 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے لیے اضافی چارج دیا گیا ہے یا عہدے خالی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی 29 یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل وائس چانسلر تعینات ہیں جب کہ 5 خالی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان کی 10 یونیورسٹیوں میں سے 5 میں وائس چانسلرز تعینات ہیں جب کہ 5 میں ایکٹنگ وی سی موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا کی 32 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 10 پر مستقل وی سی موجود ہیں، 16 پر اضافی چارج اور 6 خالی ہیں۔
اسی طرح پنجاب کی 49 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 20 پر مستقل اور 29 پر قائم مقام وی سی موجود ہیں جب کہ سندھ کی 29 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل اور 5 پر اضافی چارج پر وی سی تعینات ہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ محکمہ تعلیم میں بیٹھے افسران کیا مکھیاں مار رہے ہیں۔اس ملک میں سب کچھ آہستہ آہستہ زمیں بوس ہورہا ہے۔ اگر کوئی کالم گلوچ کے اعدادوشمار جاری ہوں تو پاکستان پہلی پوزیشن پر آئےگا۔ کچھ لوگ اسکولوں کو تباہ کرکے کہہ رہے ہیں ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اسکولوں کو تباہ کرنے والے ایسے لوگوں سے حکومتیں پھر مذاکرات بھی کرتی ہیں۔ جس طرح پی آئی اے میں تباہی ہوئی اسی طرح یونیورسٹیوں میں بھی تباہی ہو رہی ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ عدالتی معاونت سے متعلق رول 27 اے سے متعلق لاعلم نکلے اور کہا ہمیں نوٹس جاری نہیں ہوا، وکیل کے پی نے 19 یونیورسٹیوں پر 19 چانسلر کی عدم تعیناتی کا بتاتے ہوئے کہا کہ ہر یونیورسٹی کے لیے تین تین نام گورنر کو بھجوائے ہیں تاہم نام پبلک نہیں کیے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام سے کیا دشمنی ہے جو نام چھپائے جا رہے ہیں، کیا یہ ایٹمی کوڈز یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی، عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں اور انہی سے معلومات چھپا رہے ہیں. ہر جگہ اپنا بندہ لگانے کے لیے خفیہ رکھا جاتا ہے شاید کسی ایم پی اے کے رشتہ دار کو لگانا ہوگا، صرف تعلیم کا شعبہ درست کریں تو پورا ملک ٹھیک ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ نے سرکاری جامعات میں اکیڈیمک اور نان اکیڈیمک عملے کی تناسب کی تفصیلات، کنٹرولر امتحانات اور ڈائریکٹر فنانس کی خالی اسامیوں کی تفصیلات اور یونیورسٹیوں سے بجٹ کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔